جمعرات کے روزاسرائیل نے لبنان کی جانب سے امریکی ثالثی میں سمندری سرحدی حد بندی کی تجویز پر کیگئی ترامیم کو مسترد کر دیا، جس سے بحیرہ روم کے متنازع علاقے میں دونوں ممالک کوگیس نکالنے کے قابل بنانے کے لیے برسوں کی سفارتی کوششوں پر شکوک وشبہات پیداہوگئے ہیں۔
ایک سینیر صہیونیعہدیدار نے کہا کہ "اسرائیل کو ثالثوں کی تجویز پر لبنانی ردعمل موصول ہوااور وزیر اعظم یائیر لپیڈ کو ان بنیادی تبدیلیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا جولبنان کرنا چاہتا ہے اور مذاکراتی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ اسے مسترد کر دیں۔
انہوں نے مزیدکہا کہ اگر لبنانی گروپ حزب اللہ نے کاریش فیلڈ میں گیس کی تلاش کے پلیٹ فارم کودھمکی دی تو مزید مذاکرات رک جائیں گے۔”
لبنان میں ایکلبنانی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ ان کے ملک کو سمندری سرحدی حد بندی کے معاہدے کےمسودے میں ترمیم کرنے کی درخواستوں کے بارے میں اسرائیل کا سرکاری جواب نہیں ملاہے۔
اہلکار نے مزیدکہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا انکار حتمی ہے یا بات چیت ہوسکتی ہے۔
قبل ازیں ایک سینیراسرائیلی اہلکار نے کہا تھا کہ اسرائیلی حکومت کے سینیر وزراء جمعرات کو ملاقات کریںگے تاکہ بحیرہ روم میں ایک متنازعہ گیس فیلڈ سے متعلق لبنان کے ساتھ سرحد کی حدبندی کرنے کے لیے امریکا کی ثالثی میں کیے گئے معاہدے کے مسودے پر بات چیت کی جاسکے۔
معاہدے کا مسودہجس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی تھیں کا ابتدائی طور پر اسرائیلی اور لبنانیحکومتوں نے خیرمقدم کیا تھا۔ لیکن دونوں ممالک میں اندرونی سطح پرمخالفت سامنےآئی تھی۔دونوں ممالک ابھی تک تکنیکی طور پر حالت جنگ میں ہیں۔
لبنانی حزب اللہکے رہ نما سید حسن نصر اللہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر لبنان کو اس کے ساحل سے تیلاور گیس کےحقوق سے محروم کیا گیا تو کسی کو یہاں سے وسائل حاصل کرنے کی اجازت نہیںدیں گے۔
حسن نصراللہ نے ایکٹیلی ویژن تقریر میں (13 جولائی کو) کہا تھا اگر آپ ہمیں ہمارے حقوق نہیں دیتے اورکمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں تو ہم خطے میں میزیں بدل دیں گے۔