پنج شنبه 01/می/2025

چھیالس نسل پرست فاشسٹ تنظیمیں مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے میں سرگرم

بدھ 5-اکتوبر-2022

مقبوضہ بیتالمقدس کا مسئلہ بالعموم اور مسجد اقصیٰ خاص طور پر صہیونی قابض دشمن کے پروپیگنڈےسے جڑا ہوا ہے۔ قابض ریاست بائبل اور مذہبیحوالوں کا استعمال اور القدس پر بالخصوص مشرقی حصے پر حاکمیت مسلط کرنے کے لیےمذہب کا سہارا لیتی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ القدس اس کا دل ہے جس میں مسجداقصیٰ بھی واقع ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔

اسرائیل کے تمامسیاسی، سکیورٹی اور عسکری اداروں کی توجہ القدس اور مسجد اقصیٰ پر لگی رہتی ہے۔انتہا پسند یہودیوں کو وہاں پر دھاوا بولنے کی اجازت دی جاتی ہے اور انتہا پسندوںکو مسجد اقصیٰ میں داخلے کےلیے فول پروف سکیورٹی مہیا کی جاتی ہے۔

قبلہ اول پردھاوے کے دوران انتہا پسندوں کو مسجد اقصیٰ میں تلموی تعلیمات  کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرنے اجازت ہوتی ہے۔یہ یہودی وہاں پر اردن کے زیر سرپرستی قبلہ اول کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کرتے ہیں۔اس وقت قبلہ اول میں یہودی انتہا پسند گروپوں کے دھاوے صرف چند افراد تک محدودنہیں بلکہ یہ انتہا پسند اسرائیل کے سیاسی، عسکری اور فوجی شعبے میں گھسے ہوئےہیں۔ وہ وہاں پر دانستہ طور پرجنگ چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہجنگ چھیڑنے سے مسیح کا نزول جلد ہوگا۔

ہیکل گروپ


فاشٹ انتہا پسند یہودی گروہ ہیں جو مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی کوشش کر رہے ہیںتاکہ اس کی جگہ مبینہ ہیکل قائم کر سکیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہودی لوگوں کینجات اسرائیل کی پوری سرزمین کو کنٹرول کرنے سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ اس کا آغاز”ٹیمپل ماؤنٹ” پر قبضے سے ہوگا ہے۔

تاریخی طور پرانگروہوں نے صیہونی دائیں بازو کے اندر ایک انتہا پسند بلاک بنایا اورمذہبی قوم پرسترجحان کے پیروکاروں کو شامل کیا گیا، جس نے یہودیت کے قومی اور مذہبی دھارے کومتوازن بنایا۔ مسجد اقصیٰ کی جگہ مبینہ ہیکل کے قیام کی مہم برپا کی۔

ان کا ماننا ہےکہ سیکولر قوم پرست گروپ جو 1967 میں القدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کرتے وقت قابضحکومت کی طرف سے کارروائی کا انچارج تھا، نے مسجد اقصیٰ پر بمباری کرنے اور اسے مٹانےکا سنہری موقع گنوا دیا۔ پھر مبینہ ہیکل کی تعمیر نہ ہوسکی۔اس کے بعد گذشتہ صدی کیاسی کی دھائی سئ یہودی انتہا پسندوں نے قبلہ اول کی جگہ ہیکل کی تعمیر کی منصوبہبندی شروع کی۔

"ٹیمپلماؤنٹ ٹرسٹیز” گروپ کو 1967 میں قائم ہونے والا پہلا گروپ سمجھا جاتا تھا۔ اسکا بانی گیرشون سالمن ایک انتہا پسند یہودی تھا۔ ایریل "ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ” گروپ جو ٹیمپلگروپس کا مادر ادارہ ہے سب سے بڑا یہودی مرکز ہے جو مسجد اقصیٰ کے انہدام کی مہمچلا رہا ہے۔ دونوں نمایاں سیٹلمنٹ سوسائٹیز "Ateret Cohenim"اور "Elad"، پھر "Temple Mount Trustees"گروپ۔ ویمن فار دی ٹیمپل، اسٹوڈنٹس فار دی ٹیمپل جس کی سربراہی ٹام نیسانی کر رہےتھے، ٹیمپل ماؤنٹ ہیریٹیج گروپ کے علاوہ مجموعی طور پرچھیالیس ایسے گروپ کام کررہےہیں جو قبلہ اول کو مسمار کرنا چاہتے ہیں۔

46 گروپوں کو بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے

مرکزاطلاعات فلسطینکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں القدس اور مسجد اقصیٰ کے امور میں ماہر محقق جمالعمرو نے کہا کہ بیت المقدس کے گروہ انتہا پسند صہیونی گروہ ہیں، جن کی تعداد 46 ہے۔ان میں چھوٹے، بڑے اور درمیانے درجے کی تنظیمیں شامل ہیں جو مبینہ ہیکل کی تعمیرکے لیے کام کررہی ہیں۔

انہوں نے زور دےکر کہا کہ ان گروپ کی اصلیت نسل پرستانہ اور فاشسٹ ہے اور یہ القدس میں عرب عیسائیاور اسلامی موجودگی کے خلاف ہیں۔ اسے امریکی، کینیڈین، آسٹریلوی اور یورپی عیسائیصہیونی اداروں کی طرف سے کروڑوں ڈالر مالیت کی بڑے پیمانے پر اور براہ راست مالیمدد حاصل ہے۔

عمرو نے وضاحت کیکہ ان گروہوں کے وجود کا مقصد صہیونی وجود کو زندہ رکھنا ہے، وہ اس ریاست کو زندہ رہنے اور مغربی ممالک سے مالی امدادحاصل کرنے کے لیے مذہبی جواز فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے خبردارکیا کہ ان گروہوں کے ربی ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کی محبت کے لیے نہیںبلکہ پیسے اور جنس کی محبت کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا سبسے بڑا ثبوت ہے کہ وہ خدا سے نہیں ڈرتے اور یہ کہ مذہب ان کے لیے صرف اپنے ذاتیمفادات کے حصول کا ذریعہ ہے۔

بیت المقدس اورمسجد اقصیٰ کے امور میں ماہر محقق نے اس بات پر زور دیا کہ ان تنظیموں میں سے ہر ایککو مکمل آزادی حاصل ہے لیکن وہ مبینہ ہیکل کی خاطر اکٹھے ہونے کے لیے تیار ہیںلہٰذا ان گروہوں نے ایک انتہا پسند بلاک تشکیل دیا جو تمام گروہوں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے اور اس کیزمین پرمبینہ ہیکل کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔

جمال عمرو کاکہنا ہے کہ ٹیمپل گروپ کے ٹرسٹیز جو 1967 کی عظیم شکست کے بعد قائم کیا گیا تھا کابنیادی عقیدہ یہ ہے وہ بابرکت مسجد اقصیٰکی جگہ مبینہ طور پر تیسرے ہیکل کی تعمیر نو کرنا چاہتا ہے، مسیح کی آمد کی تیاریکے لیے اسے ہیکل کی تعمیر کرنا ہے۔ اس نے ایک سے زیادہ مرتبہ مبینہ ہیکل کا سنگ بنیادرکھنے کی کوشش کی، لیکن اس کی کوششیں ناکام رہیں۔

وہ یہ بھی مانتےہیں کہ عہد نامہ قدیم میں آیا ہےکہ اس کی بنیاد پرکہ مسیح ابنِ داؤد کے آنے اور بنیاسرائیل کی نجات کے لیے تین شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، یعنی: تمام یہودیوں کیآمد، مقدس سرزمین، اس سرزمین پر "ریاست اسرائیل” کا قیام جس کا وعدہ خدانے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے کیا تھا اور ٹمپل ماؤنٹ پر تیسرے ہیکل کی تعمیر کیبحالی۔

ٹیمپل گروپس کےپاس طویل مدتی اہداف کے ساتھ ساتھ قلیل مدتی اہداف بھی ہیں۔

طویل مدتی مقاصد:

ٹمپل ماؤنٹ (حرمالشریف) کو عرب-اسلامی قبضے سے آزاد کرانا طویل مدتی مقاصد میں سے ایک ہے۔

– نام نہاد تیسرےہیکل کی تعمیر نو جو اسرائیل کے لوگوں اور تمام اقوام کے لیے عبادت گاہ ہو گی۔

فرات سے دریائے نیلتک بائبلی اسرائیل کا قیام۔

مختصر مدت کےمقاصد:

– القدس میں ان گروہوں کو تنظیمی طور پر مضبوط کرنا، تاکہ اپنے طویلمدتی اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔

– اسرائیل کے لوگوں کے لیے آگاہی مہم چلانا، اسرائیل کی نجات کےموضوع پر "خدا کے منصوبے” کو سمجھنا۔

میڈیا کے ذریعےتحریک کے پیغام اور اصولوں کو پھیلانا اور ٹیمپل ماؤنٹ کے ساتھ کانفرنسوں کاانعقاد

پرانے القدس کوآباد کرنا۔

جمال عمرو نے بیتالمقدس کے گروپوں کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات کو مسترد کرنے کی تصدیقکی۔انہوں نے بتایا کہ انتہا پسند یہودی القدس پر مذاکرات کے مخالف ہیں اور ان کاکہنا ہے کہ اگر القدس پر مذاکرات کیے جاتے ہیں تو اس سے القدس تقسیم ہوجائے گا۔

مختصر لنک:

کاپی