مسجد اقصی سے متعلق بات چیت صرف ایک مکان کی گفتگو نہیں ۔ یہ تو ایک عقیدے کی بات چیت ہے۔ مسجد کے صرف مسلمانوں کی ملکیت ہونے اور صہیونیوں کے اس سے کوئی تعلق نہ ہونے کی گفتگو ہے۔ یہ کسی بھی طاقت کی جانب سے مسلمانوں کو ان کے حق کے پیچھے ہٹنے پرمجبور نہ کرسکنے کی بات چیت ہے۔
اقوام ت متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 18 اکتوبر 2016 کو منظور کی گئی قرار داد میں یہودیوں کے مسجد اقصی اور دیوار براق کے ساتھ کسی بھی دینی تعلق کی نفی کی اور ان دونوں کو خالص اسلامی ورثہ قرار دیا تھا۔
اس رپورٹ میں ہم معاصر تاریخ میں مسجد اقصی کے تحفظ کیلئے فلسطینیوں کے تاریخی اقدامات کے متعلق بتائیں گے۔ یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ کسی طرح کی یہودی شرانگیزیوں نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمتی اور انقلابی تحریکوں کو جنم دیا۔
براق انقلاب 1929
مرکزاطلاعات فلسطین کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں معاصر فلسطینی تاریخ کے تحقیق کار عونی فارس نے بتایا کہ براق انقلاب 15 اگست 1929 کو دیوار گریہ پر قبضے کی صہیونی کوششوں کے نتیجے میں شروع ہوا تھا۔ یہودیوں نے ایک مارچ کیا جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ انہوں نے ’’ دیوار ہماری دیوار ہے‘‘ کا نعرہ لگایا ۔ اس سے اگلے روز ۔جواب میں فلسطینیوں نے بھی مظاہرے شروع کردئیے اور پہلا مظاہرہ مسجد اقصی سے شروع ہوا۔ فلسطینیوں کے مظاہرے القدس، صفد، حیفہ، الخلیل تک پھیل گئے۔ یہ مظاہرے اسی سال اکتوبر کے آغاز تک جاری رہے۔
براق انقلاب میں 120 فلسطینی شہید اور 232 زخمی ہوگئے۔ ان جھڑپوں میں 133 یہودی مارے گئے اور 341 زخمی ہوئے۔ اس انقلاب کی وجہ سے فلسطینیوں میں انقلابی کلچر پھیل گیا۔ اس انقلابی تحریک کے نتیجے میں دیوار براق پر مسلمانوں کو حقدار ٹھہرانے کی ایک برطانوی قرار داد اور ایک عالمی قرار داد سامنے آئی۔
اقصی قتل عام 1990
اقصی قتل عام کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب 8 اکتوبر 1990 کو غرشون سلمون کی قیادت میں ’’ٹیمپل ماؤنٹ کے محافظوں‘‘ کے نام سے یہودی انتہا پسند گروپ کے کارکنوں نے مسجد اقصی کے صحن میں نام نہاد تسرے ہیکل کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کرڈالی۔ مسجد اقصی میں موجود ہزاروں نمازیوں نے انہیں روکا تو اسرائیلی فوج نے فائرنگ کرکے 21 نمازیوں کو شہید اور 150 کو زخمی کردیا۔ صہیونی فورسز نے 270 فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا۔
سرنگ کا تحفہ 1996
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب 25 ستمبر 1996 کو قابض حکومت نے قدیم القدس میں ایک سرنگ کھود ڈالی، یہ سرنگ 60 میٹر لمبی اور ایک میٹر سے بھی کم چوڑی اور کئی میٹر بلند تھی۔
عونی فارس نے بتایا کہ سرنگ کا افتتاح قابض اسرائیل کی جانب سے شہر پر اپنی خودمختاری حاصل کرنا اور شہر کی اسلامی خصوصیات کو مٹانے کی کوشش تھی۔ فلسطینیوں نے احتجاج کیا تو قابض اسرائیل نے احتجاج کا جواب تشدد سے دیا۔ صہیونی فورسز نے 63 فلسطینیوں کو شہید اور 1600 کو زخمی کردیا۔ سرنگ کا تحفہ کے نام سے معروف یہ سانحہ ’’ اوسلو معاہدے‘‘ پر دستخط کے بعد اسرائیل کے ساتھ فلسطینی عوام کا پہلا بڑا تصادم تھا۔
انتفاضہ اقصی 2000
انتفاضہ اقصیٰ کے نام سے معروف فلسطینیوں کے دوسرے انتفاضہ کے آغاز کی چنگاری اسرائیل نے 28 ستمبر 2000 کو لگائی تھی۔ یہ انتفاضہ مسئلہ فلسطین کے تصفیے اور پی ایل اور اور قابض صہیونی حکومت کے درمیان مذاکرات کے ختم ہونے پر شروع ہوا۔
اس انتفاضہ میں مزاحمت کے کثیر ذرائع استعمال کئے گئے۔ 1948 سے اسرائیل سے زیر قبضہ علاقوں سے بھی فلسطینیوں نے شہادتیں دیں۔ اسرائیلی فوجی چوکیوں اور پوسٹوں پر فائرنگ کی گئی۔ سرنگوں کے ذریعہ بستیوں پر حملے کئے گئے۔
قابض فورسز نے بھی سخت ترین جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ مغربی کنارے میں کئی شہروں پر حملہ کیا۔ بعد میں اس نے 2002 میں مغربی کنارے کو قدیم مقبوضہ فلسطین سے الگ کرنے کیلئے دیوار بنا کر اسے دفاعی دیوار کا نام دے دیا۔ اسرائیل نے بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کی اور احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی اور ابو علی مصطفیٰ جیسے فلسطینی رہنماؤں کو شہید کردیا۔
عونی فارس نے بتایا کہ اس انتفاضہ اقصیٰ میں لگ بھگ 4412 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ 48322 زخمی ہوگئے۔ اس دوران دلیر مزاحمت کار فلسطینیوں نے 1069 اسرائیلیوں کو بھی جہنم واصل کردیا اور قابض دشمن کے 4500 افراد کو زخمی بھی کیا۔
انتفاضہ کے نتائج میں غزہ کی پٹی سے قبضے کا انخلاء، وہاں مزاحمت کا مضبوط ہونا، پراسرار حالات میں یاسر عرفات کی رخصتی، مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول کا دوبارہ قیام، اور تھکن شامل تھے۔ مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں کا۔
اسی انتفاضہ کے نتائج میں کئی اہم واقعات پیش آئے۔ غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا انخلا، غزہ میں مزاحمت کا مضبوط ہونا، پراسرار حالات میں یاسر عرفات کی وفات، مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کا دوبارہ قیام اور مغربی کنارے میں مزاحمت کی کمزوری کو انتفاضہ اقصی سے ہی جوڑا جا سکتا ہے۔
تحفہ القدس 2015
محقق عونی فاریس کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی یہ بغاوت یکم اکتوبر 2015 کو ایک مزاحمتی سیل کی جانب سے ’’ ایتمار‘‘ کارروائی کے بعد شروع ہوئی۔ اس کے دو دن بعد مھند حلبی کی جانب سے قدیم القدس میں چاقو کے ایک حملے کے بعد شروع ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں کارروائیاں یہودی آباد کاروں کے وحشیانہ حملوں کے سلسلہ کے ردعمل میں کی گئی تھی۔ یہودیوں ان حملوں سے ایک بڑا پرتشدد حملہ 31 جولائی 2015 کو ضلع نابلس کے قصبہ دوما میں پیش آیا تھا جس میں انتہا پسند یہودی گروپ نے کیا اور دوابشہ خاندان کو نذر آتش کردیا تھا۔
تحفہ القدس سے قبل قابض فوجیوں اور یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصی پر وحشیانہ حملے کئے تھے۔ نمازیوں پر صوتی اور گیس کے بموں کی برسات کی تھی۔ ربڑ کی گولیاں مار کر نمازیوں کو زخمی کیا جاتا تھا۔ انہیں کارروائیوں کی وجہ سے فلسطینیوں میں ایک آگ بھڑک رہی تھی۔ 2015 کے اس سال میں یہودی آباد کاروں کی جانب سے تقریبا ہر روز مسلمانوں پر حملے کئے جارہے تھے۔ فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکا جارہا ہے۔
اسرائیلیوں کے ان حملوں اور سخت اقدامات کے ماحول میں فلسطینیوں کے مظاہروں کی ایک لہر شروع ہوگئی جس نے مغربی کنارے کے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسرائیل نے شہروں کے داخلی راستوں پر سکیورٹی بڑھا دی تھی۔ ان سخت حالات میں فلسطینیوں نے چاقو سے حملوں کی کارروائیوں کو تیز کیا اور یہودی فوجیوں اور آباد کاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
فلسطینی محقق عونی فارس نے کہا ’’ تحفہ القدس‘‘ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی ظالمانہ پالیسیوں کےرد عمل میں شروع ہوا۔ اس سے قبل سالوں تک فلسطینی مزاحمت میں کمزوری آ چکی تھی۔ اس مرتبہ فلسطینی مزاحمت میں تیزی میں 2014 میں شروع اور کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے معرکے ’’عصف مأکول‘‘ کا بھی کردار تھا۔ اسی معرکہ نے مغربی کنارے کے باشندوں میں مزاحمت کا حوصلہ بڑھایا۔
تحفہ باب الاسباط 2017
یہ بغاوت 14 جولائی 2017 کو مسجد اقصیٰ کی بندش کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب باب حطہ کے مقام پر ام الفہم کے تین نوجوانوں کی طرف سے قابض پولیس پر فائرنگ کردی گئی ۔