لبنان کے شہر بیروت کے مغرب میں شتیلا کے علاقے میں اقوام متحدہ کی ورکس اینڈ ریلیف ایجنسی’’انروا‘‘ کے زیر انتظام چلنے والے مہاجر کیمپ میں ایک فلسطینی بچے کی موت کے بعد دوسرا سانحہ سامنے آ گیا۔
موت کی ایسی ایک کشتی نے ایک اور فلسطینی بچے کو نگل لیا۔ ہجرت کی کوشش میں لکڑی کی کشتی پر سوار فلسطینی بچہ العیسی اور اس کے ساتھ مزید 5 افراد سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔
غیر قانونی طور پر ہجرت کرتے ہوئے کشتی پر سوار 3 سالہ بچے سمیر العیسی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی۔
سمیر العیسی اور فلسطینی تارکین وطن 10 ستمبر کو 15 میٹر لمبی لکڑی کی کشتی پر سوار ہو کر لبنان کے ساحل سے اٹلی کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
مہاجر کیمپ میں معاشی مشکلات اور وسائل کی سخت کمی کے شکار 75 سے زائد افراد اپنی گنجائش سے چھوٹی 15 فٹ طویل کشتی پر سوار ہو گئے۔ بے روزگاری کے ستائے ان افراد نے نوکری کی تلاش میں اس طرح کے غیر قانونی سمندری سفر کو ترجیح دی تھی۔
تاہم ہوا کا رخ کشتی کے مسافروں کی خواہش کے برعکس ہو گیا اور کشتی نے سمیر العیسی اور اس کے ساتھ سوار دیگر غیر قانونی مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس طرح اچھے حالات کی تلاش میں گھر سے نکلے یہ افراد یورپ پہنچنے سے قبل ہی سمندری لہروں کی نذر ہو گئے۔
ترک کوسٹ گارڈ نے اعلان کیا کہ اسے غیر قانونی تارکین کی 6 نعشیں ملی ہیں جن میں دو نو مولود، ایک خاتون اور تین بچے شامل ہیں۔ یہ سب ایجین سمندر میں ڈوبے ہیں۔
کوسٹ گارڈ نے بتایا کہ 73 افراد کی جان بچا لی گئی ہے جن میں سمیر العیسی کے والدین بھی شامل ہیں۔ 5 لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
ترک کوسٹ گارڈ کی قیادت نے فلسطینی مہاجرین کی موت کی ذمہ داری یونان پر عائد کر دی اور کہا کہ ان تارکین نے جزیرہ ’’رودوس‘‘ کے قریب کشتی کا ایندھن ختم ہونے کے بعد یونانی کوسٹ گارڈ سے مدد طلب کی تھی، تاہم یونانی کوسٹ گارڈ نے انہیں بچانے کے بجائے ترک ساحل کے قریب سمندری لہروں کے رحم وکرم پر ڈوبنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔
واضح رہے کہ لبنان سے فلسطینی مہاجرین کی جانب سے غیر قانونی ہجرت کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لبنان میں فلسطینی مہاجرین کی موجودگی کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ان مہاجر کیمپوں کے مکین یورپ کی طرف ہجرت کیلئے ایجنٹس کو رقم دینے کیلئے اپنے گھروں کا سامان اور فرنیچر تک فروخت کر رہے ہیں۔