قابض اسرائیلی حکامنے بیت المقدس کے جنوب مشرق میں جبل ابوغنیم کی زمینوں پر تعمیر ہونے والی "حارہوما” بستی میں آباد کاروں کی تعداد کو دوگنا کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔اس حقیقتکے باوجود کہ اس کا موجودہ بستی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
عبرانی اخبار، Ha’aretz نے اپنے منگل کے ایڈیشن میں کہا ہے کہ ایک نئی بستی کے بارے میںبات ہو رہی ہے جو قدرتی نظاروں اور آب و ہوا کے لحاظ سے ایک انتہائی حساس جگہ پرقائم کی جائے گی، جسے "یونیسکو کے مطابق عالمی آثار قدیمہ کے مقام کے طور پرجانا جاتا ہے۔ یہ بستی بیت لحم کے گاؤں بتیر میں تعمیر کی جائےگی۔
اخبار نے نشاندہیکی کہ یہودی بستی پڑوس "غربی ہار گیلو” گاؤں والاجا (القدس کے جنوب مغرب میں) کے دوسری طرف تعمیر کیا جائےگا جو "ہار گیلو” کی بستی سے ملحق ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگربستی کا پڑوس بنایا گیا تو الوالجہ کو چاروں طرف سے رنگ برنگی دیوار سے گھیر لیاجائے گا، جو سات میٹر تک بڑھے گی اور 560 سیٹلمنٹ یونٹ بنائے جائیں گے۔”
بتیر کے آبی اورآثار قدیمہ کے گاؤں کو 2014 میں اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
یہ بات قابل ذکرہے کہ "اسرائیلی” اور فلسطینی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ بیتالمقدس سمیت مغربی کنارے کی بستیوں میں تقریباً 650000 آباد کار ہیں جنہیں 164بستیوں اور 124 چوکیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
بین الاقوامیقانون مغربی کنارے اور بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ تصور کرتا ہے اور وہاں آباد کاریکی تمام سرگرمیاں غیر قانونی ہیں۔