فلسطینی نظر بندوں کی دیکھ بھال کے لیے سرگرم فلسطینی کمیشن نے واضح طور پر خطرہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیلی جیل میں قید اور کینسر کے مریض ابو حامد کی کسی وقت بھی موت واقع ہو ہو سکتی ہے۔
کمیشن نے 49 سالہ ناصر ابو حامد کے اس حالت کو پہنچنے کی ذمہ داری اسرائیلی جیل حکام اور قابض اسرائیلی اتھارٹی پر عائد کی ہے جس نے بد ترین کینسر کے بوجود ابو حامد کی موت انہیں جیل میں رکھنے کا بے رحمانہ فیصلہ کیے رکھا۔
کمیشن کے ترجمان حسن عبدا لربہ نے کہا ہے ابو حامد کو جیل انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے پچھلے دو ماہ سے کیموتھراپی نہیں کرا جاسکی ہے۔ کیونکہ اسے مسلسل جیل میں رکھ کر اسے بروقت علاج کی سہولت نہ دے کر جیل انتظامیہ نے اس ھال کو پہنچا دیا ہے کہ اب کیمو تھراپی بھی مشکل ہو چکی ہے۔
پچھلے ہفتے فلسطینی قیدیوں سے متعلق سوسائٹی نے طبی رپورٹس کی بنیاد پر کہا تھا کہ ابو حامد کا کسی بھی وقت انتقال ہو سکتا ہے اور وہ قریب المرگ ہیں۔’
اس مشکل صورت حال میں ہسپتال نے کوئی بھی طبی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس مریض کو جیل سے رہائی دے کر گھر بھیج دیں، اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ تاکہ یہ اپنی زندگی کے آخری دن اپنے اہل کانہ کے ساتھ گذار سکیں۔
ابو حامد المعری نامی پناہ گزین کیمپ رام اللہ کے رہائشی ہیں۔ انہیں اسرائیلی جیل میں 2002 سے بند رکھا گیا ہے۔ ابو حامد کے علاوہ ان کے چار دوسرے بھائیوں کو بھی اسرائیلی جیل میں رکھا گیا ہے۔
چند ماہ پہلے ابو حامد کی حالت بیماری کے باعث زیادہ بگڑی تو بھی اسرائیلی قابض اتھارٹی نے انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کرنا قبول نہ کیا ۔
اس موقع پر انسانی حقو ق کی تنظیموں سے کمیشن نے اپیل کی وہ اس بارے میں آواز اٹھائیں ۔ لیکن اس کے باوجود ابو حامد آج بھی اپنی آخری سانسیں بطور قیدی لے رہے ہیں۔