جمعه 15/نوامبر/2024

گاؤں نبی صموئیل کو ہتھیانے کے صہیونی منصوبوں کے سامنے ڈھال بنے فلسطینی

جمعرات 8-ستمبر-2022

مقبوضہ غرب اردن  کے شہر رام اللہ اور القدس کے درمیان کے پہاڑی علاقے میں نبی صموئیل علیہ السلام  سے منسوب گاؤں صموئیل واقع ہے، اس قدیم گاؤں کی وہ مسجد جسے تیرہویں صدی کے مصر و شام کے عظیم بادشاہ الظاہر بیبرس نے تعمیر کیا تھا کا وجود بھی اسرائیل کو یہودیانے کے منصوبوں کی نذر ہو چکا ہے۔

سرحد کی حدود سے آزاد اس گاؤں پر اسرائیل نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ قابض اسرائیل اس کی اراضی کو ہڑپ کر رہا اور یہاں موجود دینی اور آثار قدیمہ کے آثار کو غائب کرتا جا رہا ہے تاکہ یہاں موجود ہر چیز کو یہودی ورثہ کا رنگ دیتا جائے۔ سرحدوں اور شناخت  کے بحران کے شکار اس گاؤں کے اصل مکین خانہ بدوشوں اور مہاجروں کی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

یہ تاریخی گاؤں اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ یہ غرب اردن کا پہلا گاؤں تھا جس کے مکینوں کو اسرائیل حکام نے بے دخل کرکے ان کے گھروں کو منہدم کر دیا تھا۔

گاؤں نبی صموئیل القدس کے شمال میں بلدیہ کی حدود سے باہر راموت محلے کے شمال میں ایک کلومیٹر دور واقع ہے۔ گاؤں سطح سمندر سے 890 میٹر بلند اور اسی نام  سے واقع تاریخی مقام  کے ہمسائیگی میں ہے۔

اس مقام  کے شمال مشرق میں فلسطینی گاؤں الجیب ہے۔ شمال مغرب میں جفعات زئیف وجیفعون کی بستیاں ہیں۔ مغرب میں بیت اکسا کا قصبہ ہے۔ گاؤں بنی صموئیل ایک چوٹی کے اوپر مسجد اور نبی صموئیل سے منسوب مزار کےاطراف میں بنایا گیا تھا۔

قدیم منصوبہ

’’اگر یہودی القدس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو تمام غیر یہودی یادگاروں کو ہٹا دیا جائے، مسمار کر دیا جائے اور جلا دیا جائے۔” یہ  ہے وہ مساوات ہے جسے صہیونی تحریک کے بانی "تھیوڈور ہرزل” نے منظور کیا تھا۔ اس عبارت کا خلاصہ بنتا ہے ہر فلسطینی اور خاص طور پر القدس کے مکین کو ہجرت پر مجبور کیا جائے اور ان کی نسل کشی کی جائے۔

تضاریس گاؤں کا قصہ بھی یاد کر لیجئے جب اس  پر قبضہ کے وقت سابق اسرائیلی وزیر اعظم ارئیل شیرون نے کہا تھا کہ ہمیں یہودی بستیوں کو توسیع دینے کیلئے پہاڑی چوٹیوں  سے زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو نکالنا ہو گا۔ آج جس قدر حصے پر بھی ہم قبضہ کرلیں گے وہ ہمارا ہو جائے گا اور جس پر ہم قبضہ نہ کرسکے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

تاریخی ذرائع کے مطابق بعض لوگوں کا کہنا ہے یہ گاؤں کنعان  میں  ’’مصفاۃ‘‘ یعنی چوکیداروں کے ٹاورز کی جگہ پر واقع تھا۔ رومی دور میں اسے ’’ Maspaha‘‘ کہا جاتا تھا۔

صہیونی آباد کاروں نے گذشتہ دنوں گاؤں نبی صموئیل اور اس کی مسجد پر حملہ کا مطالبہ کیا تھا انہوں نے دس ہزار آباد کاروں کو لانے کی باتیں بھی کی تھیں۔

بھولا ہوا گائوں

یہ گاؤں اسرائیلی میونسپلٹی اور فلسطینی اتھارٹی کی غفلت کے باعث پسماندگی کے مصائب جھیل رہا ہے۔ یہاں بنیادی انسانی ضرورت کی اشیا غائب ہیں، اسی لئے یہاں کے مکین اسے ’’بھولا ہوا قید گاؤں‘‘ بھی کہتے ہیں۔

عرب سٹڈیز ایسوسی ایشن کے شعبہ نقشہ جات اور جغرافیائی انفارمیشن سسٹم کے ڈائریکٹر خلیل تفکجی نے بتایا کہ گاؤں نبی صموئیل کیٹگری سی کے علاقہ میں آتا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ نبی صموئیل یہاں پر موجود ہیں۔

تفکجی نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ گاؤں میں اب جو عمارتیں دکھائی دیتی ہیں یہ 1972 میں منہدم کئے گئے گاؤں کی باقیات ہیں اور 1995 میں 3500 ایکڑ زمین پر قدرتی ریزرو جگہ قرار دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے مکینوں کو کسی بھی گھر کی تعمیر، تزئین و آرائش یا علاقے کی ترقی کے کسی بھی اقدام سے سختی سے منع کر دیا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گاؤں گرین لائن کے قریب ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اردن کے راستے میں ایک سکول بنایا جائے، اس سکول کو ملکہ رانیہ کے ذریعہ سے ’’اردن میرا سکول‘‘ کا نام دیا گیا تھا کیونکہ ایک کارواں کو زبردستی گاؤں لایا گیا تھا۔

انہوں نے کہ اب یہ گاؤں مکمل طور پر دیگر علاقوں سے کٹ کر رہ گیا ہے، گاؤں میں داخلہ اور خارجہ رابطہ کے ذریعہ ہونا چاہیے۔ اسرائیل علاقہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا پورا دباؤ ڈال رہا ہے۔

یہودیانے کے منصوبے

تفکجی کے مطابق اسرائیلی قبضہ سے قبل علاقہ کے مکینوں کی تعداد ہزار کے قریب تھی جو اب بہت کم ہو کر 300 سے زیادہ نہیں۔

مسجد نبی صموئیل کے اس علاقے کا شمار ان اسلامی یادگاروں میں ہوتا  جن کو یہودی رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ مسجد کی پہلی منزل کو یہودی عبادت گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مسجد کی شناخت کو بتدریج مٹایا جا رہا ہے۔ گاؤں میں آثار قدیمہ کی کھدائیاں مسلسل جاری رہتی ہیں۔

گذشتہ تاریخی ادوار میں یہ گاؤں ایک حقیقت آشکار کرنے والا علاقہ تھا کیونکہ صلیبی جنگوں کے زمانے میں یہ علاقہ ساحلی علاقے کو ظاہر کرتا تھا۔ انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اردن کے دور میں بھی یہ علاقہ تزویراتی اہمیت کا حامل تھا۔ اسرائیل کو خوف تھا کہ القدس اور تل ابیب کے درمیان مرکزی شاہراہ کو بند نہ کر دیا جائے۔

گاؤں کی رہائشی انسانی حقوق کی سرگرم خاتون کارکن نوال برکات نے  واضح کیا کہ اسرائیل مکینوں پر گاؤں سے نکلنے کا دباؤ ڈال رہا ہے اور اسی بنا پر گاؤں  کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہوگئے ہیں۔

ابھی دو روز قبل ہی میرے شوہر، بیٹے اور گاؤں کے 8 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان کو حملہ کرنے والے یہودی آباد کاروں سے جھگڑنے کی پاداش میں حراست میں لیا گیا۔ اس گاؤں کی تاریخ سینکڑوں سال پر محیط ہے۔ صلیبوں کے  دور میں یہ صلیبیوں کا ایک قلعہ تھا، صلاح الدین ایوبی آیا تو اس نے اس قلعہ کو اسلامی شعار سے آراستہ کر دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ کہ 1968 میں اسرائیل نے نبی صموئیل کی قبر کی نام استعمال کر کے اس مسجد پر قبضہ کیا۔ اسرائیلیوں نے کہا کہ نبی صموئیل بنی اسرائیل سے تھے۔ یہودیوں کے مسجد پر دھاوے، یہاں پر تلمودی عبادات کا سلسلہ  اب تک جاری ہے۔

اجازت نہ  ہونے کا بہانہ بنا کر  گاؤں والوں کو  نئی عمارت  تعمیر کرنے  دی جاتی ہے نہ پرانی میں کوئی توسیع کی اجازت ہوتی ہے۔  اکسی بھی قسم کی تعمیر کرنے والے شخص کو اسرائیلی پالیسیوں کا مخالف گردانا جاتا ہے۔

گاؤں میں داخل اور خارج ہونے کا راستہ الجیب پوسٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اسرائیل کسی بھی شخص کو اس بنا پر داخل ہونے سے روک دیتا ہے کہ اس کا گاؤں والے کسی فرد سے براہ راست رشتہ نہیں ہے۔

برکات  نے واضح کیا کہ اس قدر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود گاؤں والے اپنی شناخت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیلی پالیسیوں کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں۔ ضرورت اس بات کہ ہے کہ بیت المقدس کے رہائشی اس گاؤں کا دورہ کریں اور یہودی آباد کاروں  کے دھاوں کو پسپا کرنے میں کردار ادا کریں۔

برکات نے پر زور انداز میں کہا کہ گاؤں والے آہستہ آہستہ نقل مکانی کرتے جا رہے ہیں۔ بہت سے مکین  پہلے ہی گاؤں سے باہر جا چکے کیونکہ انہیں گاؤں میں گھر بنانے یا اس کی تزئین کی اجازت نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی مہینے میں صرف  مرتبہ کوڑے کے کنٹینر کو صاف کرنے کیلئے میونسپل عملے کو بھیجتی ہے  اور اب سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔

حملہ کرنے کا منصوبہ

القدس میں حماس کے ترجمان محمد حمادہ نے کہا کہ گاؤں نبی صموئیل اور اس کی مسجد پر حملے کا منصوبہ ایسا جرم ہے جس پر گاؤں  کے تحفظ اور آباد کاروں کی دہشت گردی کو روکنا ضروری ہے۔

انہوں نے  مرکز اطلاعات فلسطین کے نمائندے کو بتایا کہ جمعہ کو ہزاروں آباد کاروں نے گاؤں نبی صموئیل پر دھاوا بولنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ منصوبہ علاقے کو یہودیانے اور فلسطینوں کو بے دخل کرنے کا نیا جرم ہے۔

انہوں نے مزید کہا یہ منصوبہ مقبوضہ القدس کے جنوب میں بیت صفافا  کے قریب یہودی آبادی ’’ جفعات شکید‘‘ میں اگلے ہفتے مزید 700 رہائشی یونٹ تعمیر کرنے سے ہم آہنگ ہے۔

حمادہ نے مغربی کنارے اور القدس کے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ شہر اور اس کی مقدس مسجد کے دفاع کے لیے اپنے تمام ہتھیاروں کو فعال کریں۔ اس گاؤں میں مسلسل صہیونی دہشت گردی کے مقابلے میں مزاحمت کو تیز کریں اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کریں۔

مختصر لنک:

کاپی