اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے صرف دو ہفتوں کے دوران فلسطینی شہریوں کے 50 عمارتی ڈھانچے مسمار کر دیے، ان پر قبضہ کر لیا یا خود فلسطینیوں سے زبردستی گروا دیے ہیں۔ رابطہ دفتر اقوام متحدہ کے مطابق یہ واقعات صرف مغربی کنارے اور یروشلم سے متعلق ہیں۔ باقی مقبوضہ علاقوں میں اس نوعیت کی مسماری مہم کے نتائج اس کے علاوہ ہیں۔
رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے اپنی پندرہ روزہ رپورٹ جمعہ کے روز جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسماری کے واقعات دو اگست سے پندرہ اگست کے دوران پیش آئے ہیں۔ اسرائیلی قابض اتھارٹی نے اس کے لیے بہانہ یہ گھڑا کہ فلسطینیوں نے ان تعمیرات کے لیے اسرائیلی اتھارٹی سے اجازت نہیں لی تھی۔
اسرائیلی قابض اتھارٹی کی طرف سے مسمار کیے گئے ان عارضی رہائشی ڈھانچوں میں سے 42 ڈھانچے مغربی کنارے کے ایریا سی میں قائم تھے اورباقی رہائشی ڈھانچے دو بدو عرب لوگوں کے علاقوں میں تھے ۔
رپورٹ میں کہا گا ہے کہ ان عماراتی ڈھانچوں میں سے 12 وہ ڈھانچے تھے جو فلسطینی شہریوں کے بے گھر ہونے کے بعد کسی ڈونر ادارے نے انہیں دیے تھے تاکہ یہ اور ان کے بچے بے گھرہونے کے بعد ایک عارضی چھت کے نیچے آسکیں ۔ لیکن ان سے فلسطینیوں کو دوبارہ محروم کر کے 28 بچوں سمیت 220 فلسطینی شہری ایک مرتبہ پھر بے گھر اور بے در ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس رابطہ دفتر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے آٹھ اگست کو اسرائیلی قابض فوج نے جنین کے رمانہ نامی گاوں پر دھاوا بولا۔ اس طرح کی کارروائیاں 2022 کے شروع سے جاری ہیں۔ جس کے نتیجے میں مسماری جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں اس سے کم مسماریاں ہوئی تھیں۔ یہ مسلسل کی جانےوالی مسماریاں اب فلسطینیوں کے لیے اجتماعی سزا کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ جو تمام تر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر مبنی ہیں۔
رپورٹ میں ڈونر اداروں کی طرف سے بنائے گئے دو سکول بھی مسماری کے خطرے کی زد میں ہیں۔ یہ سکول جنوبی الخلیل اور رام اللہ کے علاقے میں ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 3 اگست کو ان سکولوں کو قابض اسرائیلی اتھارٹی نے نوٹس جاری کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق یہ سکول فلسطیینی بچوں کے لیے 2015 سے ڈونرز کی مدد سے بنائے گئے تھے۔ اس ادارے نے 10 اگست کو اسرائیلی عدالت کی طرف سے دیے گئے ایک حکم کا بھی حوالہ دیا ہے کہ جس میں ڈونرز اداروں کے فراہم کردہ فنڈز سے بنائے گئے سکولوں کو فوری گرا دیا جائے۔