اس سال کے آغاز سے اسرائیل کی فوجی عدالتوں نے 1056 فلسطینیوں کو انتظامی حراست کی سزاؤں کے احکامات جاری کیےہیں۔
فلسطین سینٹر فار پریزنر اسٹڈیز نے ایک بیان میں کہا ہےقابض عدالتوں نےسال 2022 کے دوران قیدیوں کے خلاف انتظامی حراست کے احکامات جاری کیے ہیں۔مرکز نے کہا کہ انتظامی فیصلوں میں سے 587 فیصلے 2-6 ماہ کی دیگر مدتکے لیے انتظامی حراست کی تجدید کے تھے اور کچھ قیدیوں ماہ تک قابل تجدید انتظامیقید کی سزائیں سنائی گئیں۔ 469 انتظامی فیصلے پہلی بار قیدیوں کے خلاف جاری کیے گئے،جن میں سے زیادہ تر رہائی پانے والے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔2021کے آغاز سے انتظامی قیدیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت انتظامیقیدیوں کی تعداد 660 کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں قانون ساز کونسل کے 4 ارکان، دو خواتینقیدی بشریٰ الطویل اور شروق البدن کے علاوہ دو نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔مرکز نے انتظامی حراست کو ایک "مجرمانہ پالیسی” کے طور پر بیانکیا جس کا مقصد فلسطینیوں کو ماوروائے قانون سلاخوں کے پیچھے پھینکنا ہے۔ یہ نامنہاد سزائیں محض شک اور خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں جن کے ذریعے بے گناہفلسطینیوں کوپابند سلاسل کیا جاتا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے انتظامی قید کی پالیسی برطانوی استبداد کے دور سےجاری ہے۔ صہیونی ریاست بھی بغیر کسی جرم کے نہتے فلسطینیوں کو پابند سلاسل کرنے کےلیے اس ظالمانہ پالیسی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔