قابض اسرائلی اتھارٹی کی طرف سے مشرقی یروشلم میں چھ فلسطینی سکولوں کے لائسنس ختم کیے جانے سے اس خدشے کو تقویت ملی ہے کہ اسرائیل اب فلسطینی تعلیمی اداروں اور نصاب تعلیم کو ختم کرنے کے اپنے پرانے ایجنڈے پر تیزی سے عمل کرے گا۔ تاکہ فلسطینی تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کو بھی یہودیانے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر ے۔
جیسا کہ پہلے سے ایسی اطلاعات موجود ہیں۔ اسرائیلی قابض اتھارٹی فلسطینیوں کی نئی نسل کو اپنی مرضی کی تعلیم دے کر فلسطینی عقائد ، نظریات ، ثقافت اور قومی سوچ پر اثر انداز ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اب جمعرات کے روز اسرائیل کی وزیر تعلیم یفتا شاشا بیتون کی طرف سے مشرقی یروشلم کے چھ فلسطینی سکولوں کا لائسنس واپس لیا جانا اسی سلسلے میں ہے۔
اسرائیلی وزیرتعلیم کا اس سلسلے میں بیان مزید چشم کشا ہے ‘ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ فلسطینی سکولوں میں پڑھائی جانے والی کتب میں اسرائیل اور اسرائیلی فوج کے بارے میں اشتعال انگیزی پائی جاتی ہے۔ ‘ وزیر تعلیم کے بقول وہ اس اشتعال انگیزی کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
اسرائیلی وزیر تعلیم نے جمعرات کے روز ان چھ سکولوں کے پرنسپل حضرات کو بلا کر اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ ان کے سکولوں کا مستقل لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ انہیں ایک سال کا عبوری لائسنس دیا جارہا ہے، اس دوران ان سکولوں کی نگرانی کی جائے گی تاکہ یہ اپنا سلیبس تبدیل کر لیں۔
یروشلم کے امور کو ڈیل کرنے والی فلسطینی وزارت نے اس اسرائیلی اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے فلسطینی تعلیم کو یہودیانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ یروشلم میں 2015 سے اسرائیلی قابض فوج مقبوضہ فلسطینی سکولوں کو اسرائیلی نصاب تعلیم اختیار کرنے کے لیے دباو ڈال رہی ہے۔