فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلسسے تعلق رکھنے والے صحافی محمد نمرعصیدہ جنہیں اسرائیلی جیلوں میں انتظامی قید کےتحت حراست میں رکھا گیا ہے بار بار گرفتاریوں کے باعث گذشتہ 22سال سے خاندان کے ساتھ عید منانے سے محروم رہے ہیں۔
39 سالہ صحافی عصیدہ کو سالم فوجی جیل میں انتظامیقید کی سزا کے تحٹ قید کیا گیا ہے۔ حال ہی میں عصیدہ کی انتظامی قید میں توسیع نےان کے خاندان پر ایک اور بجلی گرادی ۔ خاندان کو توقع تھی کہ اس بار عصیدہ کو رہاکردیا جائے گا اور وہ عید اپنے خاندان کے ساتھ منائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ صہیونیانتظامیہ نے ایک بار پھران کی خوشیوں پر پانی پھیردیا۔
یہ پہلی عید نہیں جس کے دوران قابض دشمن نے عصیدا کو اس کے خانداناور بچوں سے جدا کیا ہو بلکہ اس سے قبل قابض دشمن کی جیلوں کے اندر وہ 21عیدیں گذار چکے ہیں۔
اسیر محمد عصیدہ کی اہلیہ نہیل عصیدہ کا کہنا ہےکہ ان کے شوہر کو آنے والے کئی خاندانی اور سماجی مواقع اور تعطیلات میں شرکت سےروکاگیا۔ان کے بچے ان کے درمیان رہنا چاہتے ہیں مگر صہیونی دشمن ایسا نہیں چاہتا بلکہوہ ہمارے خاندان کو بکھیرنا چاہتا ہے۔
بچہ جس نے والد کو دیکھا تک نہیں
عصیدہ کا مزید کہنا ہے کہ ان کے 5 بچے ہیں جن میںسے تین اس وقت پیدا ہوئے جب ان کے والد وہ جیل میں تھے۔ان میں سے آخری ان کا بیٹا”زید” ہے جس نے اپنے والد کو دیکھا تک نہیں۔ زید چھ ماہ قبل پیدا ہوا جباس کے والد جیل میں تھے۔
عصیدہ نے وضاحت کی کہ اس کے بچے "نمر، رھفاور زید” اس زندگی میں اس وقت آئے جب ان کے والد جیل میں تھے۔ وہ بچوں کیپیدائش کے جشن میں بیوی اور خاندان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکے۔
نھیل کا کہنا تھا کہ میرے بچے باپ کے ہوتے ہوئےاس کے بغیر بڑے ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے والد کی صرف تصاویر دیکھ سکتے ہیں یا کبھیکبھار فون پر ان سے بات ہو جاتی ہے۔
خاتون نے کہا کہ اس کے بڑے بیٹے "نمر”نے اپنے والد کو پہلی بار اس وقت دیکھا جب وہ دو ماہ کا تھا۔ بچے کو سالم فوجی جیللے جایا گیا۔ وہاں بھی اسرائیلی فوجی جج نے صحافی عصیدہ کو اپنے لخت جگر کو اٹھانےکی اجازت نہیں دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ رہف نے بھی اپنے والد کو نہیںدیکھا۔ وہ بھی اپنے کی ایک سابقہ گرفتاری سے رہائی تک والد کو دیکھنے سے محرومرہا۔ رہف دس ماہ کی تھی جب وہ واپنے والد کے سامنے آئی۔
درد اور تکلیف
"نہیل” جو اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں مشکل سے زندگیگذار رہی ہیں کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاری کچھ مختلف ہے۔ خاص طور پر یہ کہ خاندان اوربچوں پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مدت ختم ہونے سے پہلےان کی سزا میں تجدیدکردی جاتی ہے۔ یہ ایک اعصابی کیفیت ہے۔ ہم عصیدہ کی رہائی کی امید رکھتے ہیں مگرہمیں خبر دی جاتی ہے کہ اس کی مدت حراست میں توسیع کردی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بچے اپنے والد کی رہائیکا انتظار کر رہے تھے، اور باہر جانے اور ان کے ساتھ سیر کرنے اور ان کے ساتھ ملاقاتاور عید کی نماز کے لیے جانے کی تیاریوں میں تھے لیکن ان کی قید کی تجدید سے یہ امیدیںدم توڑ گئیں۔
عصیدا نے بتایا کہ قابض ریاست کے لیے ان کا پیغامیہ ہے کہ ہماری زندگیاں جاری رہیں اور ہماری خوشیاں اور تعطیلات قابض کی ناکوں، توسیعوںاور گرفتاریوں کے باوجود جاری رہیں گی۔