آج ہفتے کے روز قابض اسرائیلی بحریہ نے شمالی غزہ کی پٹی کے سمندر میں فلسطینی ماہی گیروں کی کشتیوں پربھاری مشین گنوں سے فائرنگ کی۔
مقامی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ شمالی غزہ کی پٹی کے سمندر میں تعینات قابض بحریہ نے اپنی بھاری مشین گنوں سے جبالیہ، بیت لاہیہ الواحہ اور السودانیہ قصبوں کے سمندر میں چلنے والی ماہی گیروں کی کشتیوں پر شدید فائرنگ کی اور فلسطینی ماہی گیروں کو وہاں سے نکالنے پرمجبور کیا۔
خیال رہے کہ ماہی گیری ایک اہم ترین پیشہ ہے جس میں غزہ کے باشندے کام کرتے ہیں اور فلسطینی ماہی گیروں کی سنڈیکیٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں تقریباً 4000 ماہی گیر 50000 سے زیادہ لوگوں کی کفالت کرتے ہیں۔ گرمیوں میں فلسطینی ماہی گیروں کا کام زیادہ ہوتا ہے۔
محاصرے کے سالوں کے دوران ماہی گیری کے پیشے میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی۔ اسرائیلی پابندیوں اور آئے روز ہونے والے حملوں میں ماہی گیری کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
قابض افواج روزانہ سمندر میں فلسطینی ماہی گیروں کو نشانہ بناتی ہیں۔ حالانکہ سنہ 2014ء میں مصر کی ثالثی سے غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیلی ریاست کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطینی شہریوں کو ماہی گیری کی اجازت دینے کا پابند ہے۔
ستمبر 1993 کو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور اسرائیلی ریاست کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کے تحت ماہی گیروں کو غزہ کی پٹی کے ساحلوں کے ساتھ 20 ناٹیکل میل تک سفر کرنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن قابض ریاست نے یہ فاصلہ صرف 6 سمندری میل تک کم کر دیا ہے۔