کل جمعہ کے روز یورپی یونین نے مقبوضہ بیت المقدس میں قابض عدالت کے فیصلے کے خلاف خبردار کیا ہے کہ یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ کی اپیل کو مسترد کرنے کے خلاف یونانی آرتھوڈوکس املاک کو Ateret Cohanim کی طرف سے ضبط کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کو بے دخلی کا خطرہ لاحق ہے۔
یوروپی یونین نے مقبوضہ شہر القدس میں اپنے مندوب کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ قابض ریاست کو مسترد کرنے سے القدس میں عیسائیوں کی موجودگی پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔اس کے ساتھ عیسائی برادریوں اور ان کی املاک کو آباد کاروں کا خطرہ بھی ہے۔”
اس نے یہودی انتہا پسندوں کی طرف سے پرانے شہر میں مسیحی برادری اور مسیحی محلے، عیسائی برادری کے ورثے اور روایات کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف خبردار کیا۔
یہ کیس 2004 کا ہے جب عطریت کوھانیم تنظیم جس کا مقصد مقبوضہ القدس شہر، خاص طور پر پرانے شہر کو "یہودیانے کی ” کوشش کرنا ہے۔اس سے یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ سے تعلق رکھنے والی تین جائیدادوں کے لیے طویل مدتی محفوظ کرائے کے حقوق حاصل کیے تھے۔
پیٹریارکیٹ نے عطریٹ کوہنم کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی حکومت اس عیسائی برادری کی رضا مندی کے بغیر اس کی املا پرقبضہ کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل کی اعلیٰ عدالت نے ایک یہودی آباد کارگروپ کو مقبوضہ مشرقی بیت المقدس (یروشلم) میں واقع یونانی آرتھوڈوکس چرچ کی جائیداد کی فروخت کے متنازع سودے کو برقرار رکھا ہے اور قراردیا ہے کہ گروپ نے قانونی طریقے سے چرچ سے اراضی خرید کی تھی۔
یہودی آبادکاروں کی تنظیم ایٹریٹ کوہنیم نے،جو اسرائیل کے زیرقبضہ مشرقی یروشلم کو’’یہودیانا‘‘چاہتی ہے، 2004 میں چرچ سے خفیہ طورپر کیے گئے ایک متنازع معاہدے میں تین عمارتیں خریدکی تھیں۔
چرچ کی اراضی کی اس طریقے سے فروخت پرفلسطینیوں نے سخت غم وغصے کا اظہار کیا تھا اورسودے سے اگلے سال چرچ کے اسقف پیٹریارک ارینیوس آئی کو برطرف کر دیا گیا تھا۔
چرچ نے ایٹیریٹ کوہنیم کے خلاف الزامات عاید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جائیدادیں غیرقانونی طورپراوراس کی اجازت کے بغیرحاصل کی گئی تھیں۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے بدھ کی شام جاری کردہ فیصلے میں چرچ کی اپیل مستردکردی ہے اورکہا کہ اصل فروخت میں ملوّث فریقوں کی جانب سے غلط روی کے’’سخت الزامات‘‘پہلے کی کارروائیوں میں سچ ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
چرچ نے عدالت کے اس فیصلےکو’’غیرمنصفانہ‘‘اور’’کسی قانونی یا منطقی بنیاد‘‘کے بغیر قراردیا ہے۔
اس نے ایٹریٹ کوہنیم کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "بنیاد پرست تنظیم” قراردیاجس نے یروشلم کے ایک اہم مقام پرعیسائیوں کی ملکیتی اراضی کے حصول کے لیے اوچھے حربے اورغیرقانونی طریقے استعمال کیے تھے۔
چرچ کے وکیل اسد مزاوی نے اسرائیلی عدالت کے فیصلے کو’’انتہائی افسوسناک‘‘قراردیا ہے۔انھوں نے کہا کہ’’ہم(صہیونی)انتہاپسندوں کے ایک گروپ کے بارے میں بات کررہے ہیں جو گرجاگھروں سے جائیدادیں لینا چاہتے ہیں، پرانے شہرکا کردارتبدیل کرنا چاہتے ہیں اور عیسائی علاقوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں‘‘اسرائیل کی اعلیٰ عدالت نے ایک یہودی آباد کارگروپ کو مقبوضہ مشرقی بیت المقدس (یروشلم) میں واقع یونانی آرتھوڈوکس چرچ کی جائیداد کی فروخت کے متنازع سودے کو برقرار رکھا ہے اور قراردیا ہے کہ گروپ نے قانونی طریقے سے چرچ سے اراضی خرید کی تھی۔
یہودی آبادکاروں کی تنظیم ایٹریٹ کوہنیم نے،جو اسرائیل کے زیرقبضہ مشرقی یروشلم کو’’یہودیانا‘‘چاہتی ہے، 2004 میں چرچ سے خفیہ طورپر کیے گئے ایک متنازع معاہدے میں تین عمارتیں خریدکی تھیں۔
چرچ کی اراضی کی اس طریقے سے فروخت پرفلسطینیوں نے سخت غم وغصے کا اظہار کیا تھا اورسودے سے اگلے سال چرچ کے اسقف پیٹریارک ارینیوس آئی کو برطرف کر دیا گیا تھا۔
چرچ نے ایٹیریٹ کوہنیم کے خلاف الزامات عاید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جائیدادیں غیرقانونی طورپراوراس کی اجازت کے بغیرحاصل کی گئی تھیں۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے بدھ کی شام جاری کردہ فیصلے میں چرچ کی اپیل مستردکردی ہے اورکہا کہ اصل فروخت میں ملوّث فریقوں کی جانب سے غلط روی کے’’سخت الزامات‘‘پہلے کی کارروائیوں میں سچ ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
چرچ نے عدالت کے اس فیصلےکو’’غیرمنصفانہ‘‘اور’’کسی قانونی یا منطقی بنیاد‘‘کے بغیر قراردیا ہے۔
اس نے ایٹریٹ کوہنیم کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "بنیاد پرست تنظیم” قراردیاجس نے یروشلم کے ایک اہم مقام پرعیسائیوں کی ملکیتی اراضی کے حصول کے لیے اوچھے حربے اورغیرقانونی طریقے استعمال کیے تھے۔