فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر2021ء میں مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ کو فلسطینی مزاحمتی قوتیں ’معرکہ سیف القدس‘ یعنی ’القدس کی تلوار کی جنگ‘ کا نام دیتے ہیں۔
اس جنگ میں ہونے والے بہت سے واقعات عوام کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں مگر’جو راز میں رکھا گیا وہ بہت زیادہ ہے‘ کے عنوان سے کی جانے والی تحقیقات کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں جنہیں مرکزاطلاعات فلسطین کے پلیٹ فارم سے منظرعام پر لایا گیا ہے۔اس میں فلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے غزہ میں لڑی جانے والی 10 روزہ جنگ کے مناظر کا انکشاف کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں فلسطینی مزاحمتی قیادت نے غزہ میں ایک مشترکہ کنٹرول روم قائم کیا تھا جس میں”مزاحمت کے محور” دھڑوں کے انٹیلی جنس افسران جنگی آپریشنز کی ہدایات جاری کررہے تھے۔
قسط "جو پوشیدہ ہے وہ عظیم ترہے” کو "ہارٹنگ دی ایکویشن” کانام دیا گیا۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جوائنٹ کنٹرول روم میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے انٹیلی جنس افسران، لبنانی حزب اللہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کے عہدیدار شامل تھے۔ تحقیقات کے دوران خصوصی فوٹیج سامنے لائی گئیں۔غزہ کی سرحد کے طول وعرض میں القسام بریگیڈز کی طرف سے تیار کردہ ڈرون طیاروں کی مدد سے اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر ہونے والے حملوں کی تصاویر اور ویڈیوز حاصل کی گئیں اور انہیں جوائنٹ کنٹرول روم میں پیش کیا گیا۔
10 مئی 2021 کو شام چھ بجے فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ غزہ کی پٹی سے بیت المقدس کی طرف داغے گئے۔اس سے قبل القسام کے چیف محمد ضیف نے دشمن کو بیت المقدس میں فلسطینیوں کے گھروں پرحملوں، مسجد اقصیٰ پر دھاووں اور بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو بے گھر کرنے کے رد عمل میں راکٹ حملوں کی دھمکی دی تھی۔
فرانسیسی نیشنل سینٹر کے ڈائریکٹر ریسرچ فرانکوئس برگا کے مطابق جو کچھ ہوا اس سے فلسطینی جدوجہد کی غیر معمولی یکجہتی اور پڑوس میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کے باوجود خود کو دوبارہ فعال کرنے کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ فلسطینیوں کی بھرپور مزاحمت سے لگتا ہے کہ فلسطینی قوم سنہ 1948ء کی جنگ اور اس کے بعد تواتر کے ساتھ ہونے والے صہیونی جرائم میں چھینے گئے حقوق کے حصول کے لیے جدو جہد کی صلاحیت موجود ہے۔
اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے عسکری تجزیہ کار یوسی یہوشع نے پروگرام "What is Hidden is Greater” کی ایک قسط 27/27/2022 میں اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ مزاحمت کاروں کے میزائلوں نے اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کو حیران کر دیا ۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ارادوں اور جنگی تیاروں کو سمجھنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس تحریک نے میڈیا کے میدان میں بھرپور کردار ادا کیا اور اسرائیل کی طرف سے خطرات کو بہتر انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
تحقیقات کے دوران قسام بریگیڈ کے ایک اہم رہ نما کے ساتھ انٹرویو کیا جنہوں نے پہلی بار میڈیا سے اس حوالے سے بات کی۔ القسام بریگیڈز کےسینیر رہ نما محمد السنوار نے "سیف القدس” کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت دشمن کی دکھتی رگوں اور کمزوریوں سے واقف ہے۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے ایسا جواب دیا جس پردشمن کو اپنے فیصلوں اور تیاریوں پر نظرثانی کرنا پڑی۔ ہم نے دشمن پر ثابت کیا کہ تل ابیب کو نشانہ بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا پانی پینا۔
محمد السنوار نے کہا کہ مشترکہ سیکیورٹی روم میں مزاحمتی قوتیں ایک چھت تلے جمع تھیں۔ ان سب نے اہم انٹیلی جنس تعاون کیا القسام بریگیڈ، ایرانی پاسداران انقلاب اور لبنانی حزب اللہ کے افسران نے جنگ میں بھرپور رہ نمائی فراہم کی تھی۔
دوسری جانب القسام کی کتاب نے پہلی بار حتمی حملے کی تفصیلات کا انکشاف کیا جس کی دھمکی دی گئی تھی۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے ایک ساتھ ایک ہی وقت میں 362 راکٹ تیار کیے جنہیں داغا گیا۔ ان راکٹوں سے القسام بریگیڈز اسرائیل کے تقریباً 14 شہروں اور بستیوں کو نشانہ بنایا۔اس حملے میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب، عسقلان، حیفا، ایلات اور بیت المقدس شامل تھے۔
تحقیقاتی پروگرام میں فلسطینی مزاحمتی راکٹوں کے اسرائیلیوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بھی بات کی گئی اور کیمروں اور فونز کے ذریعے ریکارڈ کی گئی تصاویر اور کلپس پیش کیے گئے جس میں بتایا گیا کہ فلسطینی راکٹوں کے اسرائیلی آبادی پرگہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اس پروگرام میں اسرائیل کے دھوکہ دہی کے منصوبے کا بھی حوالہ دیا گیا، جس میں حماس کی سرنگوں کو نشانہ بنانے اور ان کے اندر موجود اس کے سینکڑوں مجاھدین کو مارنے کے لیے ایک جھوٹی زمینی دراندازی اختیار کی مگر فلسطینی قوتوں نے دشمن کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔