جمعه 15/نوامبر/2024

’مزار یوسف‘ پر صہیونیوں اور فلسطینیوں میں جھگڑا کیوں ہے؟

اتوار 22-مئی-2022

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہرنابلس میں ایک مقام فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان تنازع کا باعث ہے۔ ماضی میں یہ مقام متنازع نہیں تھا مگر گذشتہ 55 سال سے یہ جگہ صہیونیوں کے لیے لڑائی کا باعث ہے۔

غاصب صہیونیوں کا خیال ہے کہ نابلس میں جس جگہ کو وہ ’مقام یوسف‘ کے طور پر مقدس جانتے ہیں وہ جلیل القدرپیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار ہے۔ تاہم فلسطینی اسے ایک بزرگ ’یوسف دویکات‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جگہ حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار نہیں۔ اس جگہ پرصہیونیوں کا دعویٰ محض صہیونی استیطانی بیانیے کا حصہ ہے۔

’قبر یوسف‘ غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے مشرق میں بلاطہ کے مقام پر ہے۔ یہ جگہ فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان وجہ نزاع بنی ہوئی ہے اور اس وقت اس کا انتظامی کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے تاہم سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس جگہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسرائیلی قبضے کے بعد یہ جگہ یہودی آباد کاروں کا مرکز ہے اور آئے روز آباد کار تلمودی مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے اس جگہ  جمع ہوتے ہیں۔

سنہ 1986ء میں قابض اسرائیلی ریاست نے مقام یوسف میں ایک یہودی مذہبی اسکول قائم کیا جس میں ’تورات‘ پڑھائی جانے لگی۔ سنہ1990ء میں قبر یوسف کو ایک فوجی چوکی میں بدل دیا گیا اور اسے یہودی وزارت مذہبی امور کے حوالے کردیا گیا۔

یہودیوں کا موقف

یہودیوں کا مذہبی موقف ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے جسد خاکی کی باقیات مصر سے لا کرنابلس میں بلاطہ کے مقام پر دفن کی گئیں۔ اس حوالے سے یہودی سفر تکوین کا حوالہ دیتے ہیں۔

یہودیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت یوسف نے بنی اسرائیل کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کی باقیات کو شکیم شہرکے مشرق میں لے جائیں اور وہاں انہیں دفن کیا جائے۔ یہ نابلس کا کنعانی شہر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ قبر یہودیوں کے لیے نماز اور عبادت کا مرکز ہے۔ یہودی ہرعبرانی مہینے کے آخر میں مقام یوسف میں داخل ہوتے ہیں اور دو روز تک وہاں قیام کرتے ہیں۔ یہودی نصف شب وہاں آتے ہیں اور اگلے روز طلوع آفتاب کے بعد وہاں سے جاتے ہیں۔

مورخین یہودیوں کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نابلس میں موجود قبر200 سال سے زیادہ پرانی نہیں۔ مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف سے دو سو سال بعد مبعوث ہوئے مگران کی آخری آرام گاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مصر میں ہے مگران کی قبر کا کوئی پتا نہیں۔

اس کے علاوہ مقام یوسف کے حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ قبر ایک مزار میں ہے جو اسلام طرز تعمیر پر بنایا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایک گنبد ہے اور ایسا کسی دور میں بعض مسلمان طبقات اپنے مردوں کو دفنانے کے لیے کرتے تھے۔

یہودی بیانیے کی تردید

بعض تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبر عثمانی دور خلافت میں بنائی گئی۔ اغلب امکان یہ ہے کہ 1904ء میں یہ قبراور اس پر مزار بنایا گیا۔ یہ ایک بزرگ اور نیک شخص یوسف دویکات کی ہے۔ وہ ایک دینی عالم تھے اور دین اسلام کی تعلیمات عام کرتےرہے۔

یوسف دویکات کی وفات کے بعد خلافت عثمانیہ نے تکریم کے طور پر ان کامزار بنایا گیا۔ بعض صوفیا وہاں عبادت بھی کرتے۔ بعض مصادر سے پتا چلتا ہے کہ مدفون نیک شخص کی برکت کے لیے بچوں کےختنے بھی وہاں کیے جاتے تھے۔

فلسطینی محکمہ اوقاف میں یہ مزار ایک مسجد کے طور پر درج ہے۔

مذہب کی آڑ میں سیاسی مقاصد

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی تاریخ کے استاد اور النجاح نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر امین ابو بکر نے بتایا کہ تمام قرائن یہ بتاتے ہیں کہ یہ قبر حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری آرام گاہ نہیں۔ یہ اسلامی وقف جگہ ہے اور اس کا ریکارڈ خلافت عثمانی میں بھی ملتا ہے۔ اس لیے یہ یہودیوں کا مذہبی مقام نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطین اور بلاد شام میں ایسے ان گنت مقامات موجود ہیں۔ صرف فلسطین میں ایسے 300 تاریخی مقامات ہیں۔ روایات کے مطابق مقام یوسف میں موجود قبر صرف 200 سال پرانی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے مزار کے عنوان سے مصر میں کئی مقامات ہیں۔  ایسے مقامات جنوبی لبنان، فلسطین میں جب یوسف، جنین میں عرابہ کے مقام پر قبر یوسف اور الخلیل میں بھی قبر یوسف موجود ہے۔

فلسطینی دانشور کا کہنا ہے کہ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا باقی کسی بھی پیغمبر کی آخری آرام گاہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ان کے ناموں سے جو قبریں موجود ہیں وہ ان کی آخری آرام گاہیں ہونے کا حتمی ثبوت نہیں ہیں۔

امین ابو بکر نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت یوسف کی وصیت پران کی باقیات مصر سے فلسطین منتقل کی تھیں مگر اس کا ٹھوس ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی ان کی قبر کی جگہ کا تعین ممکن ہے۔

مختصر لنک:

کاپی