عبرانی اخبارات کا خیال ہے کہ اسرائیلی میڈیا اور اس کے اسرائیلی قابض فوجیوں کے قتل کے حوالے سے صحافی شیرین ابو عاقلہ کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ اسرائیلی میڈیا فلسطینی بیانیے کے سامنے بے بس اور لاچار دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس وقت عالمی رائے عامہ میں بھی ابو عاقلہ کو مظلومیت کی علامت اور اسرائیل کو ایک ظالم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں اسرائیلی میڈیا کا صہیونی ریاست کے بیانیے کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اخبارات نے قابض فوج پر زور دیا کہ وہ قابل اعتماد بیانیہ ترتیب دینے کے لیے صلاحیتوں کو متحرک کریں۔ خاص طور پر اسرائیل کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بتسلیم‘ جیسے اداروں کی رپورٹس کے بعد صہیونی میڈیا کو اس لیے مشکل کا سامنا ہے کیونکہ بتسلیم نے فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی ذمہ داری اسرائیلی فوج پر عاید کی ہے اور اسرائیل کے ان الزامات کومسترد کیا ہے کہ ابو عاقلہ کی مو فلسطینی مزاحمت کاروں کی گولی سے ہوئی تھی۔
اسرائیل ٹوڈے اخبار نے کہا کہ الجزیرہ کی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ کا قتل ایک عالمی سطح کا واقعہ ہے، جس میں اسرائیلی قانونی حیثیت کو تزویراتی نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہے۔”
اخبار کے مطابق قابض حکام کے دعووں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس الجھن کا شکار ہیں۔ انہیں ایک قائل کن بیانیہ وضع کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے اور اس واقعے کو بیس سال قبل ایک نہتے فلسطینی بچے محمد الدرہ کے قتل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اخبار نے شیرین ابو عاقلہ کے معاملے سے "ہمدردی” کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مقتولہ کے ساتھ ہمدردی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ امریکی شہریت رکھتی ہیں۔
عبرانی اخبار’معاریو‘ نے متنبہ کیا کہ قابض حکام کی جانب سے قابل اعتماد بیانیہ تیار کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ "بین الاقوامی میدان میں اسرائیلی فوج کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اخبار نے نشاندہی کی کہ بہت سے واقعات نے بین الاقوامی میدان میں بیداری پیدا کی اور اسرائیل کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی۔ان واقعات میں فلسطینی نژاد بزرگ امریکی شہری کو ہتھکڑیاں لگا کر موت کے گھاٹ اتارنے اور غزہ پر جارحیت کے دوران وہاں پرموجود ٹی وی چینل کے ہیڈ کواٹرزکے مرکز الجلا ٹاور پر بمباری جیسے واقعات شامل ہیں۔
اخبار یدیعوت احرونوت کی رپورٹ کے مطابق میجر جنرل ایتان بن الیاہو کا کہنا ہے کہ کیمروں اور میڈیا کی وجہ سے قابض افواج ایک نازک صورتحال سے دوچارہیں۔
ایتان نے مغربی معاشرے میں ایک طاقتور اور سفاک قابض فوج کے مشترکہ تصورات کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کا انکشاف کیا جو معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرتی ہے۔
اخبار نےلکھا کہ شیرین ابو عاقلہ کا قتل سنہ 2000ء میں کم سن بچے الدرہ کے قتل کی طرح ہے جسے اسرائیلی فوج نے بچے محمد الدرہ کے کیس کا ایک ترقی یافتہ ورژن ہے، جسے 2000 میں قابض فوج کی گولیوں سے اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جب وہ دوسرے انتفاضہ کے آغاز میں اپنے والد کی گود میں تھا۔