کل بدھ کے روزاسرائیلی فوج کی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والی الجزیرہ ٹی وی چینل کی نامہ نگار شیرین ابو عاقلہ کے ساتھی صحافیوں کا کہنا ہے کہ شیرین کو ان کے سامنے جان بوجھ کرنشانہ بنایا گیا۔
صحافی مجاھد السعدی نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں اور دیگر صحافی ساتھی قابض فوج کے مقام سے تھوڑے فاصلے پر تھے۔ ہم سب نے پریس جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ شیرین اور شذا حنایشہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم نے اسرائیلی فوج کو بتایا کہ ہم صحافی ہیں۔ ہم اس وقت البلوک فیکٹری کی سمت تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جب قابض فوج نے ہم پر براہ راست فائرنگ شروع کی تو اچانک ہماری شرین ابو عقالہ پر پڑی جو منہ کے بل زمین پر گری ہوئی تھیں۔ جب قابض فوج نے مزید جارحیت کی تو ہم نے خود کو دیوار کی اوٹ میں آنے کی کوشش کی۔ ہم اس وقت شیرین ابو عاقلہ کو طبی امداد فراہم نہیں کرسکے۔
مجاھد السعدی نے بتایا کہ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ قابض فوج نے شیریں ابو عاقلہ کو گولی مار دی ہے۔ یہ گولی ان کے کان کے نچلے حصے سے ان کے سرمیں داخل ہوگئی تھی۔ اس وقت ابو عاقلہ نے جیکٹ پہن رکھی تھی۔ قابض فوج ہمیں نشانہ بازوں کے ذریعے قتل کرنے کے درپے تھے مگرہم نے ہمت کرکے شیرین ابو عاقلہ کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب رہے۔ اس وقت وہ شدید زخمی تھیں۔
دوسری خاتون صحافی شذی حنائشہ نے بتایا کہ میں دوسرے صحافی دوستوں کی نسبت شیرین ابو عاقلہ کے زیادہ قریب تھی۔ ہم نے دیوار کی اوٹ میں خود کو بچانے کی کوشش کی۔ ہم نے پریس جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ ہم تمام صحافی دور ہی سے نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ جب ہم گولیاں چلائی گئیں اس وقت کسی قسم کی جھڑپیں نہیں ہو رہی تھیں۔
انسانی حقوق گروپ یورو مڈل ایسٹ کی طرف سے جاری ایک بیان میں سینیر صحافیہ شیرین ابو عاقلہ کی شہادت کی شدید مذمت کرتے ہوئے فلسطینی صحافتی برادری کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
یورو مڈل ایسٹ کے مطابق ابو عاقلہ کی شہادت سے انسانی حقوق اور صحافتی برادری کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ انہیں جان بوجھ کر اور یہ جان کر کہ وہ صحافی ہیں اسرائیلی فوج نے گولیاں ماریں۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھےچھ بجے صحافیوں کا ایک گروپ جنین کیمپ میں اسرائیلی فوج کی چھاپہ مار کارروائی کی کوریج کے لیے پہنچا۔ اس وقت ہرطرف اسرائیلی فوج پھیلی ہوئی تھی۔