امریکی کانگریس کے دو ارکان نے کل بدھ کو فلسطین کے شمالی مغربی کنارے کے جینن پناہ گزین کیمپ میں صحافی شیرین ابو عاقلہ کی فیلڈ ورک کے دوران اسنائپر کے ہاتھوں قتل کی تمام تر ذمہ داری قابض اسرائیل پر عاید کی ہے۔
کانگریس کے اراکین نے امریکی شہریت یافتہ "ابو عاقلہ” کے قتل پر ایک منٹ کی خاموشی اور سوگ منایا۔
کانگریس کے ارکان آندرے کارسن اور الہان عمر نے اسرائیلی فوج پر ابو عاقلہ کو جان بوجھ کر قتل کرنے کا الزام لگایا۔
کارسن نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ صحافی شیرین ابو عاقلہ کے مجرمانہ قتل پر اسرائیلی حکومت کو جوابدہ قرار دے کر اس واقعے کی عالمی سطح پر تحقیقات کرائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابو عاقلہ کا قتل اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور دیگر تمام غیر منصفانہ تشدد کی کارروائیوں کی کڑی ہے۔
درایں اثنا امریکی کانگریس کی مسلمان رکن الہان عمر نے اسرائیلی فوج پر الجزیرہ کی نامہ نگار کے دانستہ قتل کا الزام عاید کرتے ہوئے اسرائیل کو دی جانے والی سالانہ تین ارب آٹھ کروڑ ڈالر کی امریکی فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ امداد ایسے وقت میں جاری ہے جب اسرائیل 40 فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کر رہا ہے اور انہیں بے گھر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار دیگر کو مغربی کنارے سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو 1967 کے بعد سے سب سے بڑی اجتماعی بے دخلی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اس کے بعد بھی اسرائیلی ریاست کا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک اسپیکر نینسی پیلوسی نے اس قتل کو ایک "خوفناک سانحہ” قرار دیتے ہوئے "مکمل، بامقصد اور فوری تحقیقات” کا مطالبہ کیا۔
پیلوسی نے کہا کہ "کانگریس دنیا بھر میں پریس کی آزادیوں کے دفاع کے لیے پرعزم ہےاور ہر صحافی، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے والے میڈیا کارکنوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔”
مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار ذیلی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر کرس مرفی نے کہا کہ ’’تجربہ کار فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ محض اپنا کام کر رہی تھیں جب انہیں بدھ کی صبح گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ صحافیہ کی المناک موت کو ہر جگہ آزادی اور پریس پر حملے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس کی مکمل تحقیقات اور ذمہ داروں کا مکمل احتساب ہونا چاہیے۔”