اسلامی تحریک مزات [حماس] کے بیرون ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے عوامی مزاحمت اور جدوجہد کے پروگرام کی تشکیل نو کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی محاذ کو متحد کرنے کے لیے سب کو شامل کرنے کی جستجوکررہے ہیں۔
مشعل نے ٹویٹر کے ذریعے علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے درمیان فلسطینی کاز کے مستقبل پر بات چیت کے دوران کہا "ہم کسی کو محروم کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ قیادت پر کسی کی اجارہ داری ہو۔ "
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "پی ایل او میں خلل ڈالنا مناسب نہیں ہے۔”
انہوں نے نشاندہی کی کہ سیکیورٹی کوآرڈینیشن کے باوجود 2020 کے مقابلے 2021 کے دوران مزاحمتی کارروائیوں کی شرح دوگنی ہوگئی۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی جماعت تمام محاذوں پر حربوں اور اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے مزاحمت کو فروغ دینے کے لیے اپنی پوری طاقت سے کوشش کر رہی ہے۔
مشعل نے فلسطینی کاز کے لیے بین الاقوامی میدان میں تبدیلیوں کا انتظار کرنا ایک غلطی قرار دیا اور کہا کہ ہمیں دنیا کی طرف سے کوئی قدم اٹھانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنی تقدیر کوخود تشکیل دیتے ہیں اور اپنے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے سے امریکی انخلاء، اور چین اور روس کے ساتھ اس کی مصروفیت خطے کے ممالک کے لیے انحصار سے دور اہم کردار ادا کرنے کے مواقع کو بڑھاتی ہے۔ یقینی طور پر ہمارے فلسطینی کاز کی خدمت کرتی ہے۔
نارملائزیشن
مشعل نے کہا کہ ہمیں عرب عرب، عرب اسلامی اختلافات اور قابض ریاست کی دھونس سے دکھ ہوا ہے اور وہ اسے خطے میں اتحاد کا حصہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے منصوبے اب بھی سرکاری حکومتوں کی طرف سے جاری ہیں مگر خطے کےعوام ان منصوبوں میں ساتھ نہیں۔
ایران کے ساتھ تعلقات
ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں مشعل نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ نوے کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئے تھے۔یہ حماس کے فلسفے پر مبنی ہے کہ یہ ایک مزاحمتی تحریک ہے۔ مگر حماس ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے عرب ممالک سے تعلقات کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔
مشعل نے مزید کہا کہ ہمیں ایران اور دیگر کی طرف سے ملنے والی حمایت مشروط نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا ثبوت تحریک کی قیادت کے فیصلے سے شام سے ہمارا نکل جانا ہے۔
مشعل نے مختلف میدانوں اور محاذوں پر مزاحمت کو بڑھانے پر زور دیا اور کہا کہ توجہ صرف غزہ پر نہ ہو، بلکہ مغربی کنارے اور اندرونی فلسطینی علاقوں میں بھی مزاحمت شروع کی جانی چاہیے۔