افریقی یونین کے اراکین کے درمیان "اسرائیل” کے حوالے سے اختلافات ابھرنے کے بعد یونین میں اسرائیل کے مبصر کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش پر بحث شروع ہوگئی ہے۔
کل ہفتے کو ادیس ابابا میں افریقی یونین کی 35ویں سربراہی کانفرنس کا آغاز ہوا جس میں سیاسی، سیکیورٹی اور صحت کے امور، فوجی بغاوتوں، براعظم افریقہ پر کرونا کی وبا کے اثرات اور "اسرائیل” کے ساتھ تعلقات کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسرائیل کی افریقی یونین میں شمولیت کے حوالے سے یونین کے رکن ملکوں کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
اس موقعے پر بعض رکن ممالک نےجنوبی افریقہ پر تنقید کی جس کی حکمران جماعت فلسطینی عوام کے حقوق کی بھرپور حمایت کرتی ہے جنوبی افریقا نے یونین میں اسرائیل کی شمولیت کو مسترد کردیا ہے۔ دوسری طرف جنوبی افریقا نے اسرائیل کو یونین میں شامل کرنے کی شدید مذمت کی اور اسے یک طرفہ اقدام قرار دیا۔
افریقی یونین کمیشن کے چیئرپرسن موسیٰ فاکی ماہت نے گزشتہ سال اسرائیل کی طرف سے مبصر کا درجہ دینے کی درخواست کو قبول کرنے کے اپنے یکطرفہ معاہدے کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم، محمد شتیہ جنہوں نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا نے "اسرائیل” کا مبصر کا درجہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اشتیہ نے کہا یہ کردار اسرائیل کے لیے ایک انعام ہے جس کا وہ ہرگز مستحق نہیں ہے۔ یہ اسے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزیوں اور بنیادی حقوق کی پامالیوں کو جاری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسی تناظر میں خبر رساں ادارے رائیٹرز نے سربراہی اجلاس کے لیے تیار کردہ ایک داخلی یادداشت کے حوالے سے بتایا ہے کہ نائجیریا، الجزائر، جنوبی افریقہ اور علاقائی بلاک "اسرائیل” کو مبصر رکن کا درجہ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
افریقی یونین جو 20 سال قبل اپنی موجودہ شکل میں قائم ہوئی تھی نے گذشتہ 18 مہینوں کے دوران افریقہ میں 6 بغاوتوں یا اقتدار پر قبضے کی کوششوں کے بعد کوئی فیصلہ کن فیصلے نہیں کیے ہیں۔