سنہ 1948ء کے دوران اسرائیلی ریاست کے تسلط میں آنے والے فلسطینی شہروں میں ایک شہر طبریا بھی شامل ہے۔ طبریا فلسطین کے شمال میں واقع ہے۔ اس شہر میں ایک تاریخی مسجد ’مسجد الکبیر‘ یا مسجد العمری کے نام سے جانی جاتی ہے، مگر یہ مسجد اس وقت یہودیت کے نشانے پر ہے اور اسرائیلی ریاست کی انتقامی پالیسیوں کے باعث اس کے تاریخی آثار مٹنے لگے ہیں۔
مسجد الکبیر کو مسجد الزیدانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد فلسطین کی پرانی اور تاریخی مساجد میں سے ایک ہے۔ اس مسجد کی بنیاد 279 سال قبل رکھی گئی تھی۔ طبریا میں واقع یہ مسجد فلسطینیوں کے عروج کی آخری یادگار ہے۔
تاریخی مسجد
مسجد الزیدانی 1156ھ بہ مطابق 1743ء میں ظاہر عمر الزیدانی نے تعمیر کی۔ یہ مسجد اس کے بانی ظاہرعمر کے والد الزیدانی کے نام پر رکھی گئی۔ فلسطین کی دیگر تاریخی مساجد کی طرح یہ مسجد بھی اپنے دور کا فن تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔
مسجد کا بیرونی حصہ استنبول کی مسجد آیا صوفیہ کےمطابق ڈیزاین کیا گیا ہے اور اس کے اندرونی مقامات ممالیک کی یاد تاز کرتے ہیں۔
مسجد دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ ایک گراؤنڈ فلو اور دوسری پہلی منزل ہے۔ مسجد کی دوسری منزل کی چھت تک پہنچنے کے لیے زینہ لگایا ہے جس میں ساتھ سیڑھیاں ہیں۔ مسجد کی چھت پر تین چھوٹے گنبد ہیں۔
![](/Uploads/Models/Media/Images/2022/2/2/1398805487.jpeg)
![](/Uploads/Models/Media/Images/2022/2/2/1964385734.jpeg)
![](/Uploads/Models/Media/Images/2022/2/2/-92220281.jpeg)
مسجد کے اندر بنائے گئے مرکزی ہال میں کئی کمانیں ہیں جنہیں مختلف شکلوں میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مسجد میں روشنی کے لیے دس کھڑکیاں ہیں۔
فلسطین کی جامعہ بیرزیت میں انجینیرنگ کے پروفیسر جمال عمر نے اس حوالے سے مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ مسجد الزیدانی ایک تاریخی، دینی اور ثقافتی مرکز ہی نہیں بلکہ فلسطین میں مسلمانوں کی عظمہ رفتہ کی یادگار ہے۔ یہ مسجد فلسطین میں اسلامی طرز تعمیر کی سیکڑوں پرانی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
انہدام کا خطرہ
جمال عمرو نے کہا کہ مسجد الزیدانی اس وقت کھنڈر کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس کے اہم حصے کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتے ہیں۔ مسجد کو درپیش یہ خطرہ اسرائیلی ریاست کی عدم توجہی اور مسجد کی مرمت کی اجازت دینے سے انکار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسجد الزیدانی کی مرمت کے لیے طبریہ بلدیہ کو فلسطینیوں کی طرف سے اجازت کے لیے کئی بار درخواست دی مگرصہیونی حکام مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کی درخواست مسترد کردیتے ہیں۔
القدس میں تعمیراتی امور کے تجزیہ نگار نے کہا کہ اگر اس مسجد کو اسی طرح حالات کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا تو فلسطین کا یہ خطرے سے دوچار تاریخی مقام بھی اپنا وجود کھو دے گا۔
انہوں نے عالم اسلام اور عرب ممالک کی طبریا کی اس تاریخی مسجد کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ مسجد الزیدانی بہ زبان حال یہ کہہ رہی ہے کہ مسلم دنیا نے اسے فراموش کردیا ہے۔
جمال عمرو نے مزید کہا کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد اسرائیل نے بہت سے تاریخی مقامات کو یا تو تباہ کردیا یا انہیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔
یہودیانے کا خطرہ
جمال عمر نے کہا کہ اسرائیل اب تک فلسطین میں موجود 40 مساجد کا وجود مٹا چکا ہے۔ ان میں سے 20 کو قمار خانوں، جوا خانوں یا شراب خانوں، ہوٹلوں، مویشیوں کے باڑوں اور پولٹری فارموں میں تبدیل کیا گیا جب کہ 18 مساجد کو یہودی معابد میں تبدیل کردیا گیا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ یہ کیسے دین کے پیرو کار ہیں۔ کیا ان کے دین میں ایک مسروقہ اور غصب شدہ جگہ پرعبادت جائز ہے۔ کیا ان کا خدا انہیں دیکھتا اور سنتا نہیں؟۔
جمال عمرو نے کہا کہ مسجد الزیدانی فلسطین کی خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے۔ اس طرح کی ایک تاریخی مسجد عسقلان کبیر میں تھی جسے ایک شراب خانے میں بدل دیا گیا۔ اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے عسقلان کی مملوکی مسجد کو شراب خانے میں تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح القدس میں قائم تاریخی مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ ھداساعین کارم اسپتال بنایا گیا۔ اسی طرح المالحہ مسجد کو شراب خانے میں بدلا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غاصب صہیونیوں نے فلسطین کی تاریخی املاک کو یہودیانے کے لیے ایک ظالمانہ قانون کا سہارا لیا اور املاک متروکہ کی آڑ میں درجنوں تاریخی عمارتوں کو غصب کیا گیا۔