قیدی ابو حامد کینسر سے لڑتے لڑتے بے حال ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی قید میں پڑے نصیر اپنے قدموں پر چلنے سے قاصر اور وہیل چیئر پر حرکت کرتے ہیں۔
جمعرات کو فلسطینی قیدیوں کے لیے کام کرنے والی ایک انجمن نے بتایا کہ نصیرکو اپنی زندگی کی سانسیں پوری کرنے کے لیے مستقل معاونت کی ضرورت ہے۔ ان کے لیے چلنا پھرنا محال اور اپنے معمول کے کام کاج خود کرنا تقریباً دوبھر ہو گیا ہے۔تاہم وہ اپنے ارد گرد ہونے والی ہر سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے اور عزم و ہمت سے مالامال ہیں۔
انجمن اسیران کے مطابق نصیر کے وکیل ان کی فوری رہائی کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں لیکن آزمائش کی گھڑیاں ابھی باقی ہیں۔ گذشتہ بُدھ کو برزیلائی ہسپتال سے رام اللہ قید خانے میں واپس لے جایا گیا باوجود اس کے کہ اُن کی صحت انتہائی خراب ہے۔
ابو حامد 2002 سے اسرائیلی قید خانے میں بند ہیں۔ اُن کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوئے اور کینسر کا شکار ہو گئے۔ اگست میں اُنہیں چھاتی میں تکلیف محسوس ہوئی۔
معالجین نے متاثرہ پھیپھڑوں کا علاج کیا مگر اس سے قبل اسرائیلی سفّاک فوج برابر اِس سہولت سے محروم رکھے ہوئے تھی۔ دورانِ علاج تابکاری شعاعوں کا انتظام کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا۔
ابو حامد اپنے خاندان کے اُن پانچ افراد میں شامل ہیں جنہیں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ایک بھائی اسرائیلی حملے میں شہادت کا رتبہ پا چکے ہیں۔
700 سے زائدفلسطینی زندان کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ صحت کی ناگفتہ بہ صورتِ حال توجہ طلب ہے۔ 170 قیدیوں کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے۔