جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل سے دوستی ’اوسلو‘ سمجھوتے کی ’جائز اولاد‘

جمعہ 22-اکتوبر-2021

عرب ممالک کی طرف سے اسرائیلی دشمن ملک کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے اور ’نارملائزیشن‘ کے منحوس عمل کو سنہ1993ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے طے پائے نام نہاد’اوسلو‘ سمجھوتے کی ’جائز‘ اولاد کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔

اوسلو سمجھوتے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے لیے قابض اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کے قیام  کو روکنا ممکن نہیں رہا ہے کیونکہ اسرائیل سے نارملائیشن کا عمل ایک صریح اور واضح پیش رفت کے طور پرآگے بڑھ چکا ہے۔

سنہ 1948ء کی نکبہ کے بعد قضیہ فلسطین  عرب۔ اسرائیل کشمکش کا مرکزی نقطہ رہا ہے مگر اسرائیل کے ساتھ کھیلوں کے میدان میں شراکت نے دشمن ملک کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کی راہ ہموار کی۔

فلسطین کے پڑوس میں بسنے والے متعدد عرب ممالک کی اسرائیل سے جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اردن، شام اور مصر سنہ 1948ء سے 1993ء تک اسرائیل کے خلاف متعدد جنگیں لڑ چکے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ عرب ممالک میں بدلتی حکومتوں نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور امریکی آشیرباد کے حصول کے لیے امریکیوں کی سرپرستی میں اسرائیل کے ساتھ مراسم کا قیام شروع کردیا تھا۔

گذشتہ دو عشروں سے عرب ممالک کی پالیسی اسرائیل کے ساتھ کشمکش اور موثر جرات مندانہ موقف سے خالی دکھائی جاتی رہی ہے۔ عراق اور شام کی کمر ٹوٹنے، مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ نرم رویہ اپنانے کے بعد اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے لیے تیار کی گئی گاڑی میں حرکت پیدا ہوئی۔

اوسلو سمجھوتے کے 27 سال بعد اب قضیہ فلسطین اس معاہدے کا حصہ نہیں لگتا بلکہ ایسے لگ رہا ہے کہ اس سمجھوتے کا مقصد اسرائیلی دشمن کےساتھ سیکیورٹی تعاون کرنا تھا۔ اسرائیل نے اس سمجھوتے کی آڑ میں آزاد فلسطینی ریاست کا خواب مزید موہوم کرنے اور یہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینی ریاست کے قیام کی مساعی کو سبوتاژ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش رچائی۔

دشمن کا اتحادی؟

سابق فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی جانب سے جس جرات مندانہ امن کا نعرہ لگایا گیا تھا وہ بری طرح پٹ کر رہ گیا۔ ان کا یہ نعرہ فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کے حصول میں ناکام رہا جن کے لیے فلسطینی سات عشروں سے جدو جہد کرتے آئے ہیں۔

اسرائیل نے گذشتہ دو سال کے دوران متعدد عرب ممالک کے ساتھ سمجھوتے کیے اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی استوار کیے۔ ان میں بحرین، امارات، سوڈان اور مراکش شامل ہیں۔ ان ملکوں سے قبل 1978ء میں مصر اور 1994ء کو اردن نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ معاہدے کیے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے میدان میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا بھی قدم اٹھایا۔ سنہ 2019ء میں منامہ کی میزبانی میں ہونے والی نام نہاد امن کانفرنس میں شرکت کی دعوت فلسطینی اتھارٹی کو بھی دی گئی تھی مگر اتھارٹی نے عرب ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رد عمل میں اس کانفرنس کابائیکاٹ کیا۔

اسرائیلی امور کے ماہر فلسطینی تجزیہ نگار محمد مصلح نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک کے بائیکاٹ سے اسرائیل ۔ عرب نارملائزیشن کی رفتار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ یہ عرب ممالک سنہ 1993ء میں طے پانے والے اوسلو معاہدے میں اسرائیل کو غیراعلانیہ طور پرتسلیم کرچکے ہیں۔  اس معاہدے کا فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ الٹا فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کی سیکیورٹی کرنا پڑی اور اپنی سیکیورٹی فورسز کو اسرائیل کے ساتھ تعاون پر مامور کرنا پڑا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کسی دور میں عرب ریاستوں کے لیے دشمن کا درجہ رکھتا تھا مگر اب وہ ایک  قابل اعتماد ثالث کا مقام حاصل کر رہا ہے۔ یہ عرب ممالک تاثر دے رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا قضیہ فلسطین کے مفاد میں ہے۔ جیسا کہ وہ اوسلو معاہدے میں اسرائیل کو ضمنا تسلیم کرچکے ہیں۔ اب اسرائیل عرب ممالک کا سیاسی معاہدوں میں شریک اور اتحادی بن چکا ہے اور دشمن نہیں رہا ہے۔

ستمبر 2020ء کو فلسطینی اتھارٹی نے عرب لیگ کے اجلاس کی اپنی باری کی صدارت سے احتجاجا علاحدگی اختیار کی۔ یہ احتجاج امارات، بحرین اور دوسرے ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وجہ سے کیا گیا۔

عرب ۔ اسرائیل تعلقات کے قیام سے یہ راز منکشف ہوا کہ ان چار عرب ممالک کے پہلے سے پس چلمن صہیونی ریاست کے ساتھ مراسم کئی سال سے چلے آ رہے تھے۔ جب کہ اوسلو معاہدے میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سوائے اسرائیل کو سیکیورٹی تعاون فراہم کرنے کے اور کچھ نہیں بچا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا کوئی سیاسی ہدف نہیں رہا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگارڈاکٹر تیسیر محیسن کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اس وقت سیاسی تضادات سےگذر رہی ہے۔ ایک طرف وہ عرب ممالک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کرتی ہے اوردوسری طرف تحریک فتح کی قیادت میں موجودہ فلسطینی قیادت فلسطینی قوم کے اجماع سے ماورا اسرائیل کے ساتھ اوسلو معاہدے پربھی قائم ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل نے اوسلو معاہدے کو اپنے سیاسی اتحادی بنانے کے لیے استعمال کیا۔ یہی ممالک جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے اوسلو سمجھوتے کو فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے مگر حقیقت میں اس معاہدے کو اسرائیلی ریاست کے مکروہ ایجنڈے کے نفاذ کے لیے استعمال کیا گیا۔

اقتصادی امن

کئی عشروں سے مشرق وسطیٰ میں ’معاشی امن‘ کی اصطلاح نے ترویج اختیار کی۔ امریکا کی قیادت نے مغربی دنیا نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایک بالادست، مضبوط اور محفوظ ملک بنانے کے لیے تمام وسائل فراہم کیے۔

حقیقت دیکھی جائے تو ٹرمپ کے دور میں سامنے آنے والی’سنچری ڈیل‘ ان کا اقدام نہیں تھا بلکہ یہ بہت پہلے سے تیار ایک سازش تھی مگر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیےٹرمپ جیسے جگادری کا انتظار کیا گیا۔

سنہ 2019ء میں منامہ میں ہونے والی اقتصادی امن کانفرنس بھی دراصل عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کو جوڑنے اور نام نہاد اقتصادی امن کا ڈھونڈرا پیٹنے کی سازش کا حصہ تھی۔

اقتصادی امن کا سب سے پہلے نعرہ’شمعون پیریز‘ اور نیتن یاھو نے بلند کیا۔ انہوں نے ایک نئے مشرق وسطیٰ کی نوید مسرت سنائی تاہم اس میں قضیہ فلسطین کا کوئی وجود نہیں۔

تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے ساتھ دوستی معاہدے  دراصل اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی اور دفاع کے معاہدوں کو وسعت دینے کی کوشش کےساتھ ساتھ ایران کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر خطے کے ممالک بالخصوص خلیجی ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کرنا تھا۔

دراصل اوسلو معاہدے کی ولادت نے عرب ممالک کے ساتھ دوستی کی راہ پیدا کی۔قابض دشمن نے عرب ممالک کےساتھ امن برائے معیشت کی آڑ میں قضیہ فلسطین کے وجود کو ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔

امریکا میں ڈیموکریٹس کے اقتدار میں آنے کے بعد فلسطینیوں کے لیے کچھ امیدیں پیدا ہوئیں کیونکہ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کررہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی