نیو یارک یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک سائنسی تحقیق میں قابض اسرائیل کی جانب سے سوشل میڈیا پر فلسطینی مواد کی آن لائن الیکٹرانک مانیٹرنگ کے لیے ایک نیا "الگورتھم” تیار کیا گیا ہے اس پروگرام کی کچھ تفصیلات سامنے آئیں جو فلسطینی مواد کی نگرانی کرتے ہیں اور اس کی رپورٹ دیتے ہیں۔ تاکہ اس مواد کو تشدد انگیز قرار دے کر اسے ہٹایا جائے۔
ایک حالیہ مقالہ جسے "آگ پر تیل چھڑک کر سوشل میڈیا امریکا میں سیاسی پولرائزیشن کو کیسے تیز کرتا ہے؟” کا عنوان دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ فیس بک پر فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل مخالف انتہا پسندانہ خیالات کو پھیلانے اور تقسیم کرنے والی سیاسی آب و ہوا میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر فیس بک اب ایک مخصوص الگورتھم کے ذریعے اسے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ تحقیق نیو یارک یونیورسٹی کے پال بیریٹ جسٹن ہینڈرکس اور گرانٹ سمز نے تیار کی تھی جس نے "گمراہ کن معلومات کی ویڈیوز، تصاویر اور تحریروں کی شکل میں تیار کردہ مواد ذرائع ابلاغ پر نشر کیا تاکہ وصول کنندگان میں انتہاپسندی کو ہوا ملے۔ اس کے علاوہ ایک پیغام بڑے پیمانے پر اسرائیلی واٹس ایپ گروپس کے ذریعے وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا۔
اس وقت ایک بڑے فلسطینی گروپ کو واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا گیا جس میں اسرائیلی فوج کے غزہ کی پٹی پر حملے کے خلاف انتباہ دیا گیا۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ "اسرائیلی فوجی پہلے ہی اپنے راستے پر ہیں۔”
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ "فیس بک” اور "ٹوئٹر” نے خودکار اعتدال پسندی کے نظام اور خاص مواد کو ہٹانے کے "الگورتھم” کی وجہ سے لاکھوں فلسطین نواز پوسٹوں کو غلطی سے حذف کر دیا۔
تحقیق نے اشارہ کیا کہ فیس بک نے اسرائیل میں ایک "خصوصی آپریشن سینٹر” قائم کیا ہے جس کے ملازمین عربی میں روانی رکھتے ہیں تاکہ وہ فلسطینی مواد کی نگرانی کر سکیں اور یہ کہ زیادہ تر فلسطین نواز پوسٹیں فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے ہٹائی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں "شہید” جیسے الفاظ شامل تھے۔ "شہید اور مزاحمت جیسے الفاظ کو یہ الگورتھم ٹریس کر کے ان سے متعلق مواد کو ہٹا دیتا ہے۔