چهارشنبه 30/آوریل/2025

افغانستان اور فلسطین میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی میں گہری مماثلت

جمعہ 20-اگست-2021

برطانوی "مڈل ایسٹ مانیٹر” ویب سائٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس نے افغانستان اور فلسطین دونوں میں امریکا کے قبضے کے نقطہ نظر کے درمیان مماثلت بیان کی ہے۔

رپورٹ میں ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ امریکا نے محسوس کیا ہے کہ قابض طاقت کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے فوج یا سیکیورٹی آلات کی تشکیل آسان کام نہیں ہے۔ جیسا کہ افغانستان کے حالیہ واقعات نے ثابت کیا ہے۔ صرف 14 سال پہلے محمود عباس کی سربراہی میں امریکی امداد سے چلنے والی سیکیورٹی فورسز کو اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے ہاتھوں غزہ میں شکست ہوئی تھی۔

واضح تاریخی اور جغرافیائی اختلافات کے باوجود افغانستان اور فلسطین دونوں میں امریکی تجربات میں بہت زیادہ مماثلتیں ہیں۔

اکتوبر 2001 میں طالبان کی شکست کے بعد  بش انتظامیہ نے انہیں سیاسی تصفیے میں شامل کرنے کے بار بار اقدامات کو مسترد کیا۔ دو ماہ سے بھی کم عرصے بعد ، سینیر طالبان رہ نماؤں کو نئے افغان صدر حامد کرزئی نے سیاسی عمل میں شامل ہونے کے لیے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی۔ مگر اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اس کی مخالفت کی تھی۔

تاہم ، 2002-2004 کے عرصے کے دوران طالبان نے کرزئی پر دباؤ ڈالنا جاری رکھا۔ انہوں نے امریکا پر سیاسی بات چیت کے لیے دباؤ ڈالا۔ تاہم  ان کوششوں کو واشنگٹن نے مسترد کردیا اور امریکا نے گروپ کے ساتھ کسی بھی رابطے پر پابندی عائد کردی۔

فلسطین میں بش انتظامیہ کا مزاحمت کے خلاف رویہ خاص طور پر حماس کے خلاف سخت رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی  کے بعد امریکا نے حماس کی طاقت کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے دیوار سےلگانے کے لیے اسرائیل کی مزید مدد کی۔

انتخابات کے بعد حماس نے اپنی حریف فلسطینی اتھارٹی کو قومی اتحاد کی حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن فتح نے واضح طور پر امریکی احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے صاف انکار کر دیا۔

سائٹ کا دعویٰ ہے کہ امریکا کا افغانستان اور فلسطین میں جمہوری تجربات میں رکاوٹ ڈالنے کا خوفناک ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ملک دونوں ممالک کو غیر مستحکم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسے قومی مخالفین کو کمزور کرنے والے سیاسی مخالفین کو الگ تھلگ کرنے کے نتائج برداشت کرنے چاہئیں اور ان کی سیکیورٹی سروسز کا غلط استعمال اور اس کے نتائج کو تسلیم کرنا چاہیے۔

فلسطین کے حوالے سے سیکیورٹی امور کے پہلے امریکی کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ ولیم وارڈ نے امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی میں سیکیورٹی کا شعبہ غیر فعال ، الگ الگ قبائلی رہ نماؤں کے ساتھ مخصوص شخصیات کا وفادار ہے ان کے پاس طاقت کی کوئی واضح درجہ بندی نہیں ہے اور وہ کسی مرکزی قیادت کو جواب نہیں دیتے ہیں۔

اسی طرح امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل سٹینلے میک کرسٹل جو افغانستان میں CJTF کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے نے کہا کہ افغان نیشنل آرمی جو کہ بڑی تعداد میں امریکا کی تربیت یافتہ اورامریکی اسلحہ سے لیس ہے بنیادی طور پر ملک بھر میں فکسڈ چوکیوں پر کام کرتی ہے جو کہ کمزور ہیں اور ان پر طالبان حملہ کرسکتے ہیں۔

افغان نیشنل پولیس کے حوالے سے جنرل نے کہا کہ بدعنوانی عروج پر ہے۔ اس کی قیادت کمزور ہے اور اس کا استعمال قانون سازی اور قانون نافذ کرنے کے مقصد سے زیادہ پارلیمنٹیرینز اور دیگر عہدیداروں کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے۔

اس سطح پر ویب سائٹ کہتی ہے کہ فلسطین اور افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک مشترکہ مخمصہ پیدا ہوا۔

مختصر لنک:

کاپی