اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سینیر رہ نما الشیخ حسن یوسف نے اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف انتظامی قید کے ہتھکنڈے کو سنگین جرم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ صہیونی ریاست ماورائے قانون اور آئین فلسطینی شہریوں کو حراست میں لینے کے بعد بغیر کسی جرم کے انہیں محض شبے کی بنیاد پر طویل عرصے تک پابند سلاسل رکھتی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیل کایہ اقدام غیرانسانی اور غیرقانونی ہے جس کا کسی قانون اور اصول کے تحت جواز نہیں۔
خیال رہے کہ انتظامی قید اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جانے والا ایک مکروہ حربہ ہے جسے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے بھی مسترد کیا جا چکا ہے۔
اس نام نہاد انتظامی قید کے ہتھکنڈے کے تحت کسی بھی فلسطینی کو اٹھا کر پابند سلاسل کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے دی جانے والی قید کی سزا میں بار بار غیر معینہ مدت تک کے لیے تجدید کی جاتی ہے۔
اسرائیلی ریاست کی جانب سے انتظامی قید کا یہ ہتھکنڈہ ماضی میں برطانوی سامراج کے دور میں بھی فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جا چکا ہے۔
الشیخ حسن یوسف کا کہنا تھا کہ انتظامی قید کا مکروہ حربہ استعمال کرنے کا اصل ذمہ دار اسرائیلی انٹیلی جنس ادارہ ہے جو اپنی مرضی کے مطابق اسرائیلی عدالتوں سے فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں دلواتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی قوم اپنے حقوق کا دفاع جاری رکھے گی اور انتظامی قید جیسے مکروہ اور ظالمانہ حربوں سے مرعوب نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انتظامی قید کا حربہ ایک سنگین جرم اور صہیونی ریاست کا ظلم ہے جسے فلسطینیوں کو دباوٗ میں رکھنے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
الشیخ حسن یوسف نے بتایا کہ اس وقت اسرائیلی زندانوں میں 500 فلسطینی انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل ہیں۔