جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل سے تعلقات کے مخالف ممالک پرپابندیوں کا متنازع امریکی بل

بدھ 30-جون-2021

فلسطینی قوم کے حقوق کے حامی امریکی کارکنوں نے امریکی کانگریس میں عن قریب پیش کیے جانے والے اس بل کے اہداف اور مقاصد سے خبردار کیا ہے جس میں کانگریس سے کہا جائے گا کہ وہ اسرائیل سےتعلقات استوار کرنے کے مخالف ممالک پرپابندیاں عاید کرنے کی سفارش کرے۔

فلسطینیوں کے حامی امریکی کارکنوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد نے خبر دار کیا ہے کہ کانگریس میں پیش کیے جانے والے بل میں امریکی وزارت خارجہ کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ ایسے عرب اور دوسرے ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے مخالف ہیں پرپابندیاں عاید کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں امریکی وزارت خارجہ کو سفارش کی جائے گی کہ وہ ایسے ممالک کی فہرست مرتب کرے جن کے ہاں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پرپابندی کے قوانین موجود ہیں۔ اس کے بعد ان ممالک پر پابندیاں عاید کی جائیں تاکہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے پرمجبور ہوجائیں۔

امریکا میں فلسطینی دانشور ڈاکٹر سنان شقدیح کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے قیام کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر تیار کیے جانے والا یہ بل اپنے اندر کئی خطرات لیے ہوئے ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد امریکی انتظامیہ ہر اس ملک پر پابندیاں لگا سکے گی جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں یا وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔

شقدیح کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کو روکنے کے لیے فلسطینی کمیونٹی اور فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے درمیان رابطے ہیں اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ امریکی وزارت خارجہ کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے صہیونی آلہ کار کے طور پراستعمال نہ کریں۔ کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اس کے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعہ کو امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی نے  مسودہ قانون s1061 کی منظوری دی۔ یہ بل 57 ارکان کی حمایت سے منظور کیا گیا۔ اس میں وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے عرب ملکوں اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کےقیام کو آگے بڑھانے کے لیے ٹائم فریم مقرر کرے۔

مختصر لنک:

کاپی