فلسطینی قوم کے حقوق کے حامی امریکی کارکنوں نے امریکی کانگریس میں عن قریب پیش کیے جانے والے اس بل کے اہداف اور مقاصد سے خبردار کیا ہے جس میں کانگریس سے کہا جائے گا کہ وہ اسرائیل سےتعلقات استوار کرنے کے مخالف ممالک پرپابندیاں عاید کرنے کی سفارش کرے۔
فلسطینیوں کے حامی امریکی کارکنوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد نے خبر دار کیا ہے کہ کانگریس میں پیش کیے جانے والے بل میں امریکی وزارت خارجہ کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ ایسے عرب اور دوسرے ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے مخالف ہیں پرپابندیاں عاید کرنے کے لیے اقدامات کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں امریکی وزارت خارجہ کو سفارش کی جائے گی کہ وہ ایسے ممالک کی فہرست مرتب کرے جن کے ہاں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پرپابندی کے قوانین موجود ہیں۔ اس کے بعد ان ممالک پر پابندیاں عاید کی جائیں تاکہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے پرمجبور ہوجائیں۔
امریکا میں فلسطینی دانشور ڈاکٹر سنان شقدیح کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے قیام کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر تیار کیے جانے والا یہ بل اپنے اندر کئی خطرات لیے ہوئے ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد امریکی انتظامیہ ہر اس ملک پر پابندیاں لگا سکے گی جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں یا وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔
شقدیح کا مزید کہنا تھا کہ اس بل کو روکنے کے لیے فلسطینی کمیونٹی اور فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے درمیان رابطے ہیں اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ امریکی وزارت خارجہ کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے صہیونی آلہ کار کے طور پراستعمال نہ کریں۔ کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اس کے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
خیال رہے کہ گذشتہ جمعہ کو امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی نے مسودہ قانون s1061 کی منظوری دی۔ یہ بل 57 ارکان کی حمایت سے منظور کیا گیا۔ اس میں وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے عرب ملکوں اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کےقیام کو آگے بڑھانے کے لیے ٹائم فریم مقرر کرے۔