اگرچہ امریکی وزارت دفاع پینٹاگان کی ترجمان جیسیکا میکنولٹی منگل کی شب یہ اعلان کر چکی ہیں کہ امریکی فورسز نے ایرانی بحری جہاز ساویز کو لپیٹ میں لینے والی کارروائی میں شرکت نہیں کی ،،، تاہم ایک امریکی اخبار نے نیا انکشاف کیا ہے۔
امریکی ذمے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر امریکی اخبار "نیو یارک ٹائمز” کو بدھ کے روز بتایا کہ اسرائیل نے واشنگٹن کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس کی فورسز نے بحر احمر میں ایرانی بحری جہاز پر حملہ کیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی ایران کی جانب سے اسرائیلی بحری جہازوں پر سابقہ حملوں کے جواب میں کی گئی۔
امریکی ذمے دار کے مطابق توقع ہے کہ اسرائیلیوں نے ایرانی بحری جہاز پر حملے کو ممکنہ طور پر مؤخر کیا ہو۔ اس کا مقصد امریکی طیارہ بردار جہاز ڈوائٹ آئزن ہاور کو علاقے سے دور جانے کے لیے وقت دینا تھا۔ ذمے دار نے بتایا کہ بحر احمر میں ایرانی بحری جہاز کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت امریکی آئزن ہاور طیارہ بردار جہاز تقریبا 200 میل کی دوری پر تھا۔
ایسے میں جب کہ اسرائیلی ذمے داران نے ایرانی جہاز ساویز پر حملے کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے منع کر دیا ،،، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے خطے میں ایران کے جارحانہ رویے کا ذکر کیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ اسرائیل اس رویے پر روک لگانے میں سستی نہیں برتے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے جنوری میں منصب سنبھالنے کے بعد سے اسرائیلی اور ایرانی کارگو جہازوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تیز ہو گیا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک ایک دوسرے پر جارحیت کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔یورینیم کو 20 degree سے شروع کرتے ہوئے اعلی ڈگری تک افزودہ سمجھا جاتا ہے ، اور اس فیصد تک پہنچنا جوہری ہتھیار بنانے کے لئے موزوں ڈگری کی افزودگی کی طرف ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔