فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک خاندان نے صدر محمود عباس کے ماتحت ایک سیکیورٹی ادارے پر نوجوان کے ماورائے عدالت قتل کا الزام عاید کرتے ہوئے قتل کی اس مجرمانہ واردات پر قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے۔
قدس پریس نیوز نیٹ ورک کے مطابق فلسطینی خاندان نے الزام عاید کیا ہے کہ ان کے بیٹے منذر رضا کو نعلین کے مقام پر گاڑی میں سفر کے دوران بغیر کسی جرم کے گولیاں مار کر شہید کیا گیا ہے۔ مقتول نوجوان کےاہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے منذر رضا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر گرفتاری میں ناکامی پر اسے گولیاں مار دیں جس کےنتیجے میں وہ موقعے پر دم توڑ گیا۔
مقتول کے ورثا کا کہنا ہے کہ منذر رضا اپنے ایک قریبی رشتہ دار کی گاڑی میں سوار تھا۔ فلسطینی پولیس نے ان کی گاڑی کا تعاقب کیا۔ کار سے صرف پانچ میٹر کے فاصلے پر عباس ملیشیا نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی اور منذر کو بھی گولیاں ماریں۔ ایک گولی اس کی گردن سے پار ہوگئی جس کے نتیجے میں موقعے پر اس کی موت واقع ہوگئی۔
خاندان کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا نے شدید زخمی حالت میں منذر کو طبی امداد فراہم کرنے کے بجائے اسے مزید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے شہید ہونے کے بعد عباس ملیشیا نے اس کی لاش پولیس مرکز منتقل کی گئی۔
خاندان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ منذر رضا تحریک فتح کی ایک ذیلی تنظیم میں شامل تھا اور اس نے کسی شہری پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی پولیس قاتلوں کو بچانے کے لیے جعلی دعوے اور الزامات عاید کررہی ہے۔
ادھر دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کے ترجمان نے کہا کہ منذر رضا نے پولیس پرفائرنگ کی جس کے جواب میں سیکیورٹی اہلکاروں کو کارروائی کرنا پڑی۔ تاہم مقتول کے خاندان نے عباس ملیشیا کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔