اسرائیلی حکومت نے غزہ کے لاکھوں محصورین کو ایک بار پھر بلیک میل کرنے کا منصوبہ تیار کرنا شروع کیا ہے۔ اسرائیلی کنیسٹ کی خارجہ و سیکیورٹی کمیٹی کے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں غزہ کے علاقے میں کرونا ویکسین کی فراہمی روکنے اور دیگر طبی آلات کی فراہمی پرپابندی لگانے پر غور کیا گیا۔
عبرانی اخباری ویب سائٹ ‘وائی نیٹ’ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی میں کرونا ویکسین کی فراہمی صرف اس شرط پر یقینی بنانا چاہتی ہے کہ اس سے قبل غزہ میں جنگی قید بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کو بازیاب کرایا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ روز کنیسٹ کے اجلاس میں کہا گیا کہ غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کو کرونا ویکسین کے حصول سے اس وقت تک روکا جائے جب تک حماس یرغمال بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کو رہا نہیں کرتی۔ اس اجلاس میں یرغمالی فوجیوں ھدار گولڈن اور ارون شائول کے اہل خانہ کے کچھ افراد نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اجلاس میں حکومتی نمائندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کو کرونا ویکسین اور دیگر طبی آلات کی فراہمی اس وقت تک روکیں جب تک حماس قیدیوں کو رہا نہیں کر دیتی۔
گولڈن خاندان کے ایک ذریعے نے بتایا کہ انہوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ میں بھی ایک رٹ دائر کی ہے جس میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کو کرونا ویکسین کی فراہمی اس وقت تک رکوائے جب تک غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔
یرغمالی فوجی ہدار گولڈن کی والدہ لیا نے کہا کہ اس کا بیٹا ‘گیواتی’ یونٹ میں تھا اور اسے ساڑھے چھ سال سے غزہ میں جنگی قیدی بنایا گیا ہے۔ اس نے اسرائیلی حکومت پر ھدار گولڈن اور دوسرے اسرائیلیوں کی رہائی میں ٹال مٹول اور غفلت برتنے کا بھی الزام عاید کیا۔