چهارشنبه 30/آوریل/2025

اندرون فلسطین میں‌ عرب آبادی کے خلاف منظم جرائم میں اسرائیل کی مدد!

جمعرات 28-جنوری-2021

فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی ریاست کی منظم پالیسی کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ دو روز قبل سنہ 1948ء کے مقبوضہ شہر ام الفحم میں اسلامی تحریک کے ایک سرکردہ رہ نما الشیخ ‌محمد نجم کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں ‌مار کر شہید کر دیا۔

ان علاقوں میں گذشتہ چند برسوں کے دوران مقامی عرب اور فلسطینی آبادی کے خلاف قتل وغارت گری، لوٹ مار اور دیگر سنگین جرائم کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ امر انتہائی تشویش کا باعث بن ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کو دانستہ طورپر اور چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقامی فلسطینی تنظیموں کے رہ نمائوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور نمائندہ افراد کو جان سے مارنے جیسے حربوں کا سامنا ہے۔ اسرائیلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کو نشانہ بنائے جانے کے پیچھے منظم مافیا کا ہاتھ ہے۔ مگر ایسا کیوں ‌ہے کہ یہ مافیا صرف فلسطینی عرب آبادی کے خلاف کیوں سرگرم ہے؟

شہید ہونے والے فلسطینیوں کے لواحقین کی طرف سے ایسے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی بھی کی گئی مگر پولیس انہیں پکڑنے اوران کے خلاف قانونی کارروائی کو دانستہ نظرانداز کر رہی ہے۔ مقامی سطح پر عرب آبادی اور انسانی حقوق کے حلقوں کی طرف سے یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ نسل  کشی کی اس مذموم کے پیچھے قاتل گینگ یا مافیا نہیں بلکہ اسرائیل کی سرکاری پالیسی اور منظم حکمت عملی کار فرما ہے جس کے تحت فلسطینی آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جنوری 2021ء کے دوران جرائم کے ایسے دو واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات میں دو اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں قائم اسلامی تحریک کے رہ نما سلیمان الاغباریہ جو جماعت میں مسجد اقصیٰ کے امور کے نگران ہیں کو سات جنوری کو مسلح افراد نے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا۔ اس کے بعد یافا شہر میں ایک مذہبی رہی نما اور اسلامی تحریک کے عہدیدار الشیخ محمد ابو نجم کو 24 جنوری کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔

گذشتہ کئی سال سے جاری غیراعلانیہ نسل کشی کے دوران ایسا کوئی مہینا نہیں گذرتا جس میں ان علاقوں میں کسی فلسطینی کو گولیاں مار کر شہید کیے جانے کی خبر نہ آتی ہو۔ اسرائیلی حکام کی طرف سے ان واقعات اور جرائم پر دانستہ خاموشی برتی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کی دانستہ نسل کشی کے پیچھے دو اہم اسباب ہیں۔ ایک سبب تو اجرتی اور منظم مافیا ہے جسے اسرائیلی حکومت اور ریاستی اداروں کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مدد حاصل ہے اور وہ اداروں کی آشیر باد سے فلسطینیوں پر حملے کرتے ہیں۔ دوسرا سبب یہودی آباد کاروں میں بانٹا گیا بے پناہ اسلحہ ہے جسے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں عرب آبادی کی نسل کشی کو اسرائیل کی فلسطینی آبادی کے خلاف جاری مہم سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے ایک یا دو واقعات نہیں بلکہ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ اسرائیلی حکومت کی طرف سے اس پر آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اسرائیلی پولیس جرئم میں‌ملوث عناصر کے خلاف کارروائی سے پہلو تہی کیوں ‌برت رہی ہے؟ جرائم کے واقعات کو نظرانداز کرنا اور مجرموں کی نشاندہی ہونے کے باجودانہیں آزاد چھوڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسیطنیوں کی نسل کشی میں ملوث صہیونی قاتل گینگ کو پولیس اور دوسرے سیکیورٹی اداروں کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں میں پھیلے منشیات فروش گینگ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا دیا مگر فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ بند نہیں‌ کیا جاسکا۔

سنہ 2014ء سے 2017ء تک کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو یہودی آبادی کی نسبت فلسطینی عرب آبادی کےخلاف تشدد اور دیگر جرائم میں پانچ گنا زیادہ واقعات پیش آئے۔ فلسطین میں دوسری تحریک انتفاضہ کے بعد فلسطین کے اندرونی علاقوں میں  بسنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور ایک منظم مافیا فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہوگیا۔ اسرائیلی پولیس کی دانستہ لاپرواہی کے نتیجے میں قاتل گینگ اور مافیا کو مزید حوصلہ ملا۔

سنہ 2000ء کے بعد سنہ 1948ء کے مقبوضہ عرب علاقوں میں 7001 فلسطینیوں کو نسل کشی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ سنہ 2021ء میں ایک ماہ سے بھی کم وقت میں 6 فلسطینیوں‌کو بے دردی کے ساتھ شہید کیاگیا جب کہ بیت المقدس میں 4 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے۔ سال 2020ء کے دوران اسرائیلی مافیا کے ہاتھوں 17 خواتین سمیت 100 فلسطینیوں‌ کو شہید کیا جا چکا ہے۔

اسرائیلی امور کے تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی آباد کاروں کے پاس 5 لاکھ سے زیادہ ہتھیار  ہیں۔ مگر اسرائیلی پولیس کو پتا ہے کہ کس کس شخص  ہتھیارہیں اور وہ انہیں‌کیسے استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جرائم تین طرح سے پھیل رہے ہیں۔ پہلا اسلحہ کے استعمال کو نظرانداز کرنا اور جرائم پیشہ گروپوں کی مدد کرنا۔ دوسرا اسرائیلی پولیس کی طرف سے جرائم کے واقعات کی دانستہ تحقیقات نہ کرنا اور مجرموں کو آزاد چھوڑنا ہے اور تیسرا خطرناک سبب اسرائیل کے داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے ‘شاباک’ کی طرف سے فلسطینیوں کی نمائندہ شخصیات اور فلسطینی آبادی کو قتل کرنے کی غیراعلانیہ مہم چلانا ہے۔

ابو عواد کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ عرب علاقوں میں اسلامی تحریک سب سے مضبوط فلسطینی تنظیم ہے جو مسجد اقصیٰ کے دفاعی کی بھرپور تحریک چلا چکی ہے۔ یہ اسلامی تحریک ہے جس کی کوشش سے مسجد اقصیٰ کی مروانی مسجد کو بحال کیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی