لبنان میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزین اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے رحم وکرم پر ہیں۔ مگرعالمی برادری کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی ‘اونروا’ نے بھی فلسطینی پناہ گزینوںکے حقوق کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
حال ہی میں ‘اونروا’ لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوںمیں قائم کردہ طبی مراکز مسلسل 10 دن تک بند رکھے۔
سنہ 1949ء کو ‘اونروا’ کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ‘اونروا’ نے فلسطینی پنای گزین کیمپوں میں طبی مراکز ڈسپنسریاں بند کی ہیں۔
‘اونروا’ کے اس اقدام پر فلسطینی پناہ گزینوں اور دوسرے فلسطینی حلقوں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ خاص طور پر ‘اونروا’ کے طبی مراکز کی بندش کا واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب دوسری جانب لبنانی حکومت نے بھی پے درپے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی مزید مشکل ہوگئی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی ‘اونروا’ نے لبنانی حکومت کےساتھ مل کر کرونا سےنمٹنے کےلیے ایمرجنسی کمیٹی قائم کی ہے۔ تاہم یہ کمیٹی فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو کسی قسم کی طبی سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس پر فلسطینیوں میں اونروا کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
اردن میں فلسطینی پناہ گزین ایجنسی ”اونروا” کے ڈائریکٹر جنرل کلاوڈیو کوردینی نے بتایا کہ 10 دن سےزیادہ عرصے تک فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں موجود طبی مراکز کو بند کیا گیا۔
یو این عہدیدار نے بتایا کہ آئندہ چار روز تک تمام ڈسپنسریاں بند رہیں گی جس کے بعد پورے دن میں صرف تین گھنٹے کے لیے ڈسپنسریاں کھولی گئیں۔
فلسطینی عوامی حلقوں کی طرف سے ‘اونروا’ کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور اسے ریلیف ایجنسی کی پالیسیوں کے منافی اور لبنانی حکومت کی طرف سے جاری انتقامی کارروائیوں سے ہم آہنگ قرار دیا۔
لبنان میں حماس کے مندوب برائے پناہ گزین ابو احمد فضل نے کہا کہ ‘اونروا’ کا اقدام نہ تو منطق کے مطابق ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کے مفاد میں ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ حماس کی قیادت نے ‘اونروا’ کے عہدیداروں سے رابطہ کیا ہے اور طبی مراکز کی بندش کو سنگین غلطی قرار دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کرونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے اسپتالوں، طبی مراکز اور دوا خانوں کو بند کرنا ناقابل فہم ہے۔