فلسطینی اسیران اسٹڈی سینٹر کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2020ٰء کے دوران قابض صہیونی حکام نے 118 فلسطینی خواتین کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جہاں انہیں بدترین جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔
فلسطینی اسیران اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ریاض الاشقر نے بتایا کہ گذشتہ برس گرفتار ہونے والی خواتین میں فلسطینی بچیاں، بزرگ خواتین اور نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ بہت سی خواتین کو مسجد اقصیٰ کے دفاع یا وہاں پر نماز ادا کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا جب کہ بہت سی خواتین کی گرفتاری سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کی آڑ میں عمل میں لائی گئی۔
ریاض الاشقر کا کہنا ہےکہ سال 2020ء میں گرفتار کی گئی 36 فلسطینی خواتین اب بھی اسرائیل کی ‘دامون’ جیل میں قید ہیں۔ ان میں سے13 خواتین شادی شدہ اور بچوں کی مائیں ہیں۔ تین خواتین کو بغیر کسی الزام کے محض انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔ 8خواتین 10 سال یاس سے زاید عرصے تک قید کاٹ چکے ہیں۔ ان میں فلسطینی پارلیمنٹ کی ایک خاتون رکن خالد جرار بھی شامل ہیں جو مسلسل 15 ماہ سے پابند سلاسل ہیں۔
ریاض الاشقر نے بتایا کہ زیر حراست کم عمر بچیوں میں 16 سالہ میار النتشہ، 17 سالہ مرام النتشہ کو مسجد اقصیٰ سے حراست میں لیا گیا۔16 سالہ ایمان ابو بکر کو گذشتہ رس اسرائیلی فوجی پرقاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ کم عمر خواتین میں 17 سالہ آیہ محیسن، 18 سالہ ریما الکیلانی اور 18 سالہ آمہ ابو ترکی شامل ہیں جسے بھاری جرمانہ بھی کیا گیا۔
ریاض الاشقر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کے الزام میں 10 طالبات اور سماجی کارکنوں کو بھی حراست میں لیا۔ انہیں کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ان میں سے چار طالبات ایلیا ابو حجلہ کو 11 ماہ، شذاذ الطویل، لیان نزار کاید اور ربا فہمی کو کئی کئی ماہ قید کے تحت بدستور پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔