چهارشنبه 30/آوریل/2025

عراق میں مسلسل محرومیوں کے شکار فلسطینیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

منگل 5-جنوری-2021

عراق میں بسنے والے فلسطینی پناہ گزین سال ہا سال کی محرومیوں اور مشکلات کے بعد آج 2021ء میں داخل ہو گئے ہیں۔ کیا نیا سال بھی ماضی کی طرح فلسطینی پناہ گزینوں ‌کے لیے مشکلات کا سال ہوگا؟ بہ ظاہر ایسے لگتا ہےکہ نیا سال بھی عراق میں مقیم فلسطینیوں کے لیے کوئی بہتری اور بھلائی کی نوید لے کرنہیں آیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں‌ کے ساتھ  بدسلوکی، بنیادی شہری سہولیات سے استفادے سے محرومی، ملازمت اور روزگار کے میدان میں رکاوٹوں، تعلیمی، اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور طبی شعبوں میں برتے جانےوالے امتیازی سلوک کی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں۔

اسی جبر اور محرومی کےنہ ختم ہونے والے سلسلے کے نتیجے میں دو عشرے کے دوران بڑی تعداد میں عراق سے فلسطینی پناہ گزین دوسرے ملکوں کو ھجرت پر مجبور ہوئے۔ سنہ 2003ء کو جب امریکا نے عراق پر یلغار کی تو اس وقت وہاں ‌پر مقیم فلسطینیوں‌ کی تعداد 40 ہزار تھی اور اب یہ تعداد سمٹ کر 5 ہزار نفوس پرآگئی ہے۔ یہ وہ خاندان ہیں جن کے پاس عراق سے ھجرت اور نقل مکانی کے وسائل نہیں۔

تجزیہ نگار اور سیاسی دانشور  حسن خلاد نے ‘قدس پریس’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عراق کے قانون کے تحت فلسطینیوں کو عراقی باشندوں کے مساوی حقوق کا درجہ دیا گیا تھا مگر سنہ 2001ء میں آئین کا آرٹیکل 202 منسوخ ‌کر دیا گیا۔ اس کے بعد فلسطینیوں کے لیے عراق میں عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہوا۔ انہیں قانونی، اقتصادی، سیکیورٹی اور روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ سنہ 2017ء کو ترمیمی دستور کے آرٹیکل  76 کے نفاذ کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی اور بھی مشکل بنا دی گئی۔ ان کے خوراک کارڈ واپس لیے لیے گئے۔ اگرچہ کارڈ واپس کیے گئے مگر کئی سخت اقدامات کے بعد ان کے لیے خورک کے حصول کو مشکل بنا دیا گیا۔

عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کو ریٹائرمنٹ الائونس بھی منسوخ کردیا گیا۔ فوت ہونے کے بعد ملازمین کے اہل خانہ کو ملنےوالی پنشن منسوخ کردی گئی۔ ایسے فلسطینی جنہوں ‌نے 35 سال عراق میں خدمات انجام دیں انہیں پنشن کا حق دار قرار دیا جاتا تھا مگر اب یہ قانون بدل چکا ہے۔ عراق کے مختلف شہروں میں 40 فلسطینی پناہ گزین خاندان پنشن کے حقوق سے محروم کیے گئے ہیں۔

عراق میں موجود فلسطینی دانشور خالد الحسن کا کہنا تھا کہ ان کا فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت اور شناخت کے اظہار کے لیے تیار کردہ کارڈ تبدیل کر دیا گیا۔ یہ ان کی عراق میں واحد شناخت تھی جسے وہ پانچ سال سے عراق میں استعمال کر رہے تھے۔

یہی کارڈ عراق میں‌ ماضی میں فلسطینیوں کے شناختی کارڈ کا متبادل تھا اور اس کی بنیاد پر فلسطینی پناہ گزینوں کو سفارتی امور اور دیگر امور کی انجام دہی میں مدد لیتی تھی۔

عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کی معاشی مشکلات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ فلسیطنی پناہ گزینوں کو ملازمت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جب کوئی فلسطینی پناہ گزین کسی ملازمت کے لیے درخواست دیتا ہے کہ اسے سرکاری دستاویزات لانے کو کہا جاتا ہے۔ جب حکام کو پتا چلتا ہے کہ وہ فلسطینی ہے تو اس کی درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔

خالد الحسن کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں میں بے روزگاری بھی روز افزوں ہے۔ اگر کوئی چھوٹی موٹی ملازمت مل بھی جاتی ہے تو اس سے حاصل ہونےوالی اجرت ایک دن کے لیے گھر کے افراد کے طعام کے لیے بھی کافی نہیں‌ ہوتی۔ مہنگائی نے عراق میں فلسطینیوں کی کمر توڑ کر رکھی دی ہے۔

عراق میں سرکاری انسانی حقوق کمیشن بھی اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ فلسیطنی پناہ گزینوں یی جب بھی بات آتی ہے تو عراقی پناہ گزین کمیشن نظرانداز کر دیتا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں عراقی حکومت نے 250 فلسطینی خاندانوں کے ہائوس رینٹ پروگرام ختم کر دیا۔

رہائش نہ ہونے کے باعث عراق میں فلسطینی پناہ گزین نوجوان شادی بیاہ سے محروم ہیں۔ 75 مربع میٹر کی جگہ پر دو سے تین فلسطینی پناہ گزین خاندان آباد ہیں۔ ہزاروں ‌کی تعداد عراقی خاندان اور نوجوان مخدودش حالات کے باعث نقل مکانی کر کے ترکی، انڈونیشیا اور یورپی ملکوں کو جا چکے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی