مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو گذشتہ کچھ عرصے سے صہیونی دشمن کی طرف سے کئی طرح کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے باشندوں کو لالچ کے ذریعے ورغلانے کی بھی مہمات جاری ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے مقامی باشندوں کی طرف سے متعدد بار یہ شکایات آئی ہیں کہ اسرائیل کےسرکاری ، نیم سرکاری اور نجی ادارے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بیت المقدس کےفلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت قبول کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ القدس کے باشندوں کوقائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ تاہم فلسطینی شہریوں نے صہیونی دشمن کی طرف سے کسی بھی طرح کی طرح کی لالچ اور نام نہاد فواید کی ترغیبات مسترد کر دی ہیں۔
بیت المقدس میں یہودیت کی بیداری کے لیے کام کرنے تنظیم کے چیئرمین ناصر الھدمی نے بتایا کہ اگر اسرائیلی شہریت قبول کی جائے تو یہ بیت المقدس شہر اور اس کے باشندوں اور اس کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ اس کےعلاوہ علما کرام نے ایک فتویٰ بھی دے رکھا جس میں القدس کے باشندوں کے اسرائیلی شہریت کے حصول کو حرام اور القدس شہر کے لیے غداری قرار دے رکھا ہے۔
ناصر الھدمی نے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر صہیونی ریاست کی شہریت کو قبول نہ کریں۔ اسرائیل کی طرف سے شہریت کے بدلے میں دی جانے والی سہولیات اور سروسز کو قبول نہ کیا جائے۔
بیت المقدس کی سماجی رہ نما خدیجہ خویص نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی ریاست کی شہریت کا حصول، اس پر رضا مندی یا اس حوالے سے کسی قسم کی سروس حاصل کرنا شرعا حرام ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے۔ القدس کے باشندوں کا اسرائیلی شہریت کا حصول اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ القدس کے باشندوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا اور صہیونی ریاست کا حصہ بننا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔
درایں اثنا بیت المقدس کی ایک سرکردہ خاتون رہ نما نمیر درویش نے ایک بیان میںکہا کہ اسرائیلی شہریت قبول کرنا اسرائیل کے ناپاک اور ناجائز وجود کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا کوئی بھی اقدام اپنے اصولی حقوق اور مطالبات سے صریح انحراف ہے۔
القدس کے شہری اسامہ برھم نے کہا کہ القدس کے باشندوں کو شہریت کی پیش کش کرکے اسرائیل اپنےجرائم پر پردہ ڈالنے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔