چهارشنبه 30/آوریل/2025

بیت المقدس سے بے دخلی کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والا فلسطینی

ہفتہ 19-دسمبر-2020

مقبوضہ بیت المقدس سے آنے والی روز مرہ خبروں میں عموما یہ خبریں آتی ہیں کہ اسرائیلی حکام نے آج فلاں فلسطینی کو قبلہ اول اور القدس سے نکال دیا، آج فلاں کے قبلہ اول میں نماز کی ادائی پر اتنے عرصے کے لیے پابندی لگا دی۔

بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کی اس مجرمانہ اور منظم مہم کا شکار کوئی ایک فلسطینی نہیں بلکہ بیت المقدس کا تقریبا ہر شہری اس مکروہ مہم کا شکار ہے۔

بیت المقدس سے بے خل ہونے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد ان سرکردہ سماجی، سیاسی اور مذہبی رہ نمائوں کی ہے جو مسجد اقصیٰ کے پکے نمازی ہیں۔ اسرائیل درحقیقت بیت المقدس کی دینی اور سرکردہ شخصیات کو اس لیے مسجد اقصیٰ سے کئی کئی ماہ کے لیے بےدخل کرتا ہے تاکہ مسلمانوں کا قبلہ اول ویران ہوجائے اور یہودیوں کو وہاں اپنی شرانگیزی پھیلانے کا موقع ملے۔

اس کی تازہ مثال سابق فلسطینی اسیر عنان نجیب ہے جسے مسجد اقصیٰ سے بار بار بے دخل کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست القدس اور اس کی مٹی اور قبلہ اول کے ساتھ وابستہ افراد کی استقامت سے کس حد تک خوف زدہ ہیں۔

مسلسل بے دخلی

عنان نجیب نے بتایا کہ اسے مسلسل دوسری بار بیت المقدس بالخصوص مسجد اقصیٰ سے نکالا گیا۔ اسےماہ صیام ،میں گرفتار کیا گیا اور مسکوبیہ ٹارچر سیل میں اسے محض اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسجد اقصیٰ میں با جماعت نماز ادا کرتا ہے۔

اس نے بتایا کہ مسلسل 4 روز تک اسے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اس کے بعد اسے بیت المقدس چھوڑںے کے لیے 72 گھنٹے کی مہلت دی گئی اور ساتھ ہی کہا گیا کہ اگر اس کے پاس اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی قانونی راستہ بچا ہے تو وہ استعمال کرے ورنہ القدس سے فورا نکل جائے۔

اس نے بتایا کہ تین جون کو 6 ماہ کے لیے بیت المقدس سے بے دخل کر دیا گیا اور یکم دسمبر اس کی بے خلی کی مدت جیسے ختم ہوئی تو اسرائیلی حکام نے اسے مزید چھ ماہ کے لیے بے دخل کر دیا۔

ایک سوال کے جواب میں نجیب نے بتایا کہ بے دخلی کا اسرائیلی فیصلہ اس کے لیے کافی مشکل ہے اور اس فیصلے نے ان کے خاندان پربھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کرونا کی وبا سے بھی ان کا خاندان کافی متاثر ہوا ہے۔

ایک سوال کے کے جواب میں بے دخل شہری عنان نجیب نے کہا کہ بیت المقدس سے ہمارا تعلق ایسا ہی ہے جیسا کی شہ رگ کا جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ القدس کو ہمارے دل سے نکالنا اور ہمیں نکالنا دونوں بہت مشکل ہیں۔ اسرائیلی ریاست یہ چاہتی ہے کہ بیت المقدس کے ہر نوجوان کو وہاں سے نکال دیا جائے کیونکہ مسجد اقصیٰ کا مستقبل القدس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے۔

انہوں‌نے کہا کہ قابض صہیونیوں کے لیے ہلاکت ہے کیونکہ بیت المقدس کابچہ بچہ اپنے مقدس شہر کے دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔

مختصر لنک:

کاپی