جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل کے ساتھ عرب حکمرانوں کی ‘نارملائزیشن’ پر عرب اقوام کی مخالفت

بدھ 16-دسمبر-2020

ایک کہاوت مشہور ہے ک آپ گھوڑے کو پانی کے پاس لے جاسکتے ہیں مگر اسے پانی پینے پرمجبور نہیں ‌کرسکتے’۔ یہ کہاوت عرب حکمرانوں اور ان کی عوام پر کافی حد تک صادق آتی ہے۔ عرب حکمران اپنے سیاسی مفادات اور سیاسی اقتدار کی بقا کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مہم چلا رہے ہیں اور وہ اپنے ان مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی طرف گھیسٹ رہے ہیں مگر یہ حکمران عوام کو اسرائیل کے قریب تو لے جاسکتے ہیں مگر قابض ریاست کے حوالے سے ان کے دلوں میں ہمدردی پیدا نہیں ‌کر سکتے۔

حال ہی میں افریقی ملک مراکش نے امریکی دبائو اور بلیک میلنگ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بدلے میں امریکا نے مغربی صحارا پر مراکش کی بالادستی اور خود مختاری کو قبول کیا ہے۔ مراکش اور دوسرے عرب ملکوں کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی کوشش ان ملکوں کے عوام کی القدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے تڑپ کم نہیں کرسکتے بلکہ ان میں اور بھی اضافہ ہوگا۔

مراکش کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے ہمدردی کے باوجود  امریکا اور اس کے حوالے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے تاریخی ‘مراکشی’ دروازے کی اہمیت کو ختم نہیں کرسکتے۔ کیونکہ قبلہ اول کے اس تاریخی دروازے کو سیکڑوں سال سے مراکشی دروازہ کہا جاتا ہے۔

فلسطین امانت اور اسرائیل سے تعلقات غداری

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چند روز قبل کہا گیا کہ مراکش نے اسرائیل کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے جواب میں مراکش میں بڑی تعداد میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے اعلان کے خلاف ملین مارچ کیا جس کے لیے ‘فلسطین امانت اور اسرائیل سے تعلقات غداری’ کا عنوان دیا گیا۔

مراکشی رجیم رواں سال کےدوران اسرائیل کو تسلیم کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ تاہم بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کی حکومتوں اور عوام نے اجتماعی طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو مسترد کر دیا ہے۔

اجتماعی مخالفت

دیگر عرب اقوام کی طرح مراکش کی عوام نے بھی حکومت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ مقامی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق مراکش میں حکومت میں شامل مٹھی بھر عناصر کے سوا عوام کے تمام نمائندہ طبقات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ مسترد کر چکے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات عامہ پر تحقیق کرنے والے تجزیہ نگار ولید عبدالحیی کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں جتنے بھی اداروں کی طرف سے عوامی سروے کیے گئے ہیں ان میں کسی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کی گئی۔

انہوں نے ماضی میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2010ء کے بعد عرب ممالک، امریکا، برطانیہ، اسرائیلی وزارت خارجہ، عرب ریسرچ سینٹر اور دوحا پولیٹیکل اسٹڈیز سینٹر کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں رائے عوام کے لیے جائزے پر مبنی رپورٹس تیار کیں۔ ان تمام رپورٹس میں‌ کسی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کی گئی۔

ان سروے رپورٹس کے نتائج کے مطابق اردن میں ہونے والے سروے میں 91 فی صد عوام نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مسترد کیا۔ متحدہ عرب امارات میں 73 فی صد عوام نے اس کی مخالفت کی، تونس میں 80 فی صد، الجزائر میں ‌86 فی صد، موریتانیہ میں 89 فی صد، کویت میں 87 فی صد، لبنان میں 88 فی صد، عراق میں 79 فی صد، سعودی عرب میں 81 فی صد، مراکش میں 77 فی صد، لیبیا میں سنہ 2012ء میں 82 فی صد، مصر میں 89 فی صد، سلطنت عمان میں 85 فی صد، قطر میں 79 فی صد، شام میں سال 2013ء میں 90 فی صد، سوڈان میں 71 فی صد اور یمن میں سنہ 2015ء میں ہونے والے سروے میں 94 فی صد عوام نے اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کی مخالفت کی گئی۔

مختصر لنک:

کاپی