حال ہی میں افریقی ملک مراکش نے امریکی دبائو اور بلیک میلنگ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بدلے میں امریکا نے مغربی صحارا پر مراکش کی بالادستی اور خود مختاری کو قبول کیا ہے۔ مراکش اور دوسرے عرب ملکوں کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی کوشش ان ملکوں کے عوام کی القدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے تڑپ کم نہیں کرسکتے بلکہ ان میں اور بھی اضافہ ہوگا۔
فلسطین امانت اور اسرائیل سے تعلقات غداری
مراکشی رجیم رواں سال کےدوران اسرائیل کو تسلیم کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ تاہم بہت سے عرب اور مسلمان ممالک کی حکومتوں اور عوام نے اجتماعی طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو مسترد کر دیا ہے۔
اجتماعی مخالفت
بین الاقوامی تعلقات عامہ پر تحقیق کرنے والے تجزیہ نگار ولید عبدالحیی کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں جتنے بھی اداروں کی طرف سے عوامی سروے کیے گئے ہیں ان میں کسی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کی گئی۔
انہوں نے ماضی میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2010ء کے بعد عرب ممالک، امریکا، برطانیہ، اسرائیلی وزارت خارجہ، عرب ریسرچ سینٹر اور دوحا پولیٹیکل اسٹڈیز سینٹر کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں رائے عوام کے لیے جائزے پر مبنی رپورٹس تیار کیں۔ ان تمام رپورٹس میں کسی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کی گئی۔
ان سروے رپورٹس کے نتائج کے مطابق اردن میں ہونے والے سروے میں 91 فی صد عوام نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مسترد کیا۔ متحدہ عرب امارات میں 73 فی صد عوام نے اس کی مخالفت کی، تونس میں 80 فی صد، الجزائر میں 86 فی صد، موریتانیہ میں 89 فی صد، کویت میں 87 فی صد، لبنان میں 88 فی صد، عراق میں 79 فی صد، سعودی عرب میں 81 فی صد، مراکش میں 77 فی صد، لیبیا میں سنہ 2012ء میں 82 فی صد، مصر میں 89 فی صد، سلطنت عمان میں 85 فی صد، قطر میں 79 فی صد، شام میں سال 2013ء میں 90 فی صد، سوڈان میں 71 فی صد اور یمن میں سنہ 2015ء میں ہونے والے سروے میں 94 فی صد عوام نے اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کی مخالفت کی گئی۔