جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل سنہ 2012ء کے جنگی جرائم کی تحقیقات نہیں کرےگا؟

بدھ 9-دسمبر-2020

نومبر 2012ء کو صہیونی ریاست نے غزہ کی پٹی پر ایک بار پھر جنگ مسلط کی جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔ اسرائیلی ریاست نے اس جنگ کے موقع پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے بعد ان کی نشانات مٹانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اسرائیل نے ان جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے عالمی سطح ‌پر ہونے والی کوششوں میں نہ صرف تعاون نہیں کیا بلکہ جنگی مجرموں کو بچانے اور جرائم پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی گئی۔

گذشتہ 23 اگست کو فلسطینی انسانی حقوق مرکز کو اسرائیلی وکیل  شلومی ابرمزون کی طرف سے ایک مکتوب موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ بعض وجوہات کی بنا پر اسرائیلی حکومت کے مشیر قانون نے سنہ 2012ء کی جنگ میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کو روک دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق مرکز کا کہنا ہے کہ کل منگل 8 دسمبر کو انہوں ‌نے اس مکتوب کا جواب ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پراسیکیوٹر جنرل نے غزہ میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی ملٹری پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ ان کے پاس غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کے ارتکاب سے متعلق ثبوت ناکافی ہیں۔

مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف اسرائیلی ملٹری پراسیکیوٹر یہ دعویٰ ‌کر رہا ہے کہ اس کے پاس غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے ثبوت نہیں اور دوسری طرف صہیونی فوج نے جنگی جرائم کے الزامات سے خود کو بچانے کے لیے پراسیکیوٹر کو ناقص ثبوت فراہم کیے ہیں۔

مکتوب میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگی جرائم کا شکار ہونے والے کئی متاثرین نے صہیونی ملٹری پراسیکیوٹر کو شکایات کی ہیں۔ ان میں ناصر، الدلو، المزنر، حمادہ اور الدیب خاندانوں‌نے سنہ 2013ء کے دوران اسرائیلی ملٹری پراسیکیوٹری جنرل کو جنگی جرائم کی ٹھوس اور مستند معلومات فراہم کی تھیں۔ انہوں‌نے نہ صرف معلومات فراہم کیں بلکہ اسرائیل سے جنگی جرائم کے واقعات میں ملوث صہیونیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی سفارش کی گئی۔

جون 2013ء کو انسانی حقوق مرکز کی طرف سے اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے مکمل ثبوت فراہم کئے گئے۔ تین ستمبر 2013ء کو اسرائیلی ملٹری پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ غزہ کی پٹی میں جرائم سے متعلق اپیل عدالتوں میں درخواستیں دائر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

فروری 2015ء کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک بار پھر درخواست ی گئی اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جنگی جرائم کے ارتکاب کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مختصر لنک:

کاپی