فلسطین میں یہودی آباد کاری پر نظر رکھنے والے ایک ادارے کی طرف سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عدلیہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر کام کررہی ہے۔
قومی دفتر برائے دفاع اراضی کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی عدلیہ فلسطینی شہریوں کی زندگی سے متعلق متعدد معاملات میں اسرائیل کے سیاسی نظام سے الگ تھلگ کام نہیں کرتی بلکہ عدلیہ یہودی آباد کاری، قبضے اور توسیع پسندی جیسے جرائم میں ریاست کے ہاتھ میں ایک آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے سیاسی اور فوجی اداروں کی ہدایات کے تحت صہیون ریاست کی عدلیہ فلسطینی زمینوں پر قبضے کو سند جواز فراہم کرنے اور انہیں آبادکاری کی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع کر رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قابض حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی اس پالیسی سے آباد کاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو مغربی کنارے میں ایک سے زیادہ جگہوں پر چوکیاں قائم کر کے فلسطینی سر زمین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی تازہ مثال نابلس کے جنوبی گاؤں بورین اسرائیلی عدالت کی اجازت سے فلسطینیوں کی زمینوں میں خیمے لگائے اور پانی کی ٹینکیاں نصب کیں۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے مقبوضہ بیت المقدس اور اس کے اطراف سے شروع ہونے والی چوکیوں کو قانونی حیثیت دے کر اسرائیلی آباد کاروں کی قبضے کی اشتہا کو مزید بڑھا دیا ہے۔