اسرائیلی ریاست فلسطینی شہروں میں یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھے ہوئے بلکہ آئے روز فلسطین کے مزید علاقوں میں یہودی کالونیاںتعمیر کرکے قبضے اور توسیع پسندی کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔
فلسطین میں یہودی آبا کاری اور توسیع پسندی کے حوالے سے اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی ضابطے بھی دیوار پر دے مارے ہیں۔ اس حوالے سے ہونے والی مذمت اور تنقید کی پرواہ کیے بغیر قابض ریاست فلسطینی علاقوں میں اندھا دھند تعمیرات کررہی ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی ریاست نے بیت المقدس میں عیسویہ کی اراضی پر 3500 گھروں پر مشتمل ایک نئی کالونی قائم کرنے کی منظوری ی ہے۔ یہ ایک چھوٹا شہر ہوگا جس میں عانا اور الطور کے علاقے جو اوسلو معاہدے کے تحت ‘سیکٹر ای 1’ میں شامل کیے گئے تھے کو شامل کیا جائے گا۔
ٌگذشتہ جمعہ کو فلسطینی وزارت خارجہ نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ فلسطینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ‘سیکٹر ای 1’ میں یہودی آباد کاری مستقبل کی فلسطینی ریاست کے وجود کو تباہ کردے گی۔
اسرائیلی انسانی حقوق گروپ کی وارننگ
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ’ عیر عمیم’ نے ‘سیکٹر ای 1’ میں یہودی آباد کاری کو ایک نیا اور خطرناک منصوبہ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نسلی دیوار، غرب اردن کی تقسیم اور یہودی کالونیوں کو ‘معالیہ ادومیم’ کے جوڑنے کا آخری قدم تصور کیا جائے گا۔ اگر عیسویہ، عناتا اور الطور کی اراضی پر ایک نئی بستی تعمیر کی جاتی ہے تو فلسطینیوں کے لیے ایک نیا آبادیاتی اور جغرافیائی عدم توازن پیدا ہوگا جو قابل قبول اور زندگی گذارنے کے قابل آزاد فلسطینی ریاست کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔
انسانی حقوق گرورپ کا کہنا ہے کہ ‘سیکٹر ای 1’ میں 3 ہزار سے زاید فلسطینی رہائش پذیر ہیں۔ ان میں خان الاحمر جیسے چھوٹے بدو قبائلی علاقے ہیں جو مشرقی بیت المقدس کے بدو عرب علاقے مشہور ہیں۔ اسرائیل پہلے ہی االخان الاحمر کے فلسطینی عرب دیہاتیوں کو وہاںسے نکال باہر کرنے کے طاقت کےاستعمال جیسے مکروہ حربے بھی آزما چکا ہے۔
القدس کو الگ تھلگ کرنا
فلسطین میں یہودی بستیوں کے امور کے ماہر خالد معالی کا کہنا ہے کہ ‘سیکٹر ای 1’ میں تعمیرات بیت المقدس کو اطراف کے علاقوں سے مکمل طور پرالگ تھلگ کردے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں غرب اردن اور القدس کے درمیان ایک نئی رکاوٹ کھڑی ہوگی اور یہ رکاوٹ مستقبل کی فلسطینی ریاست کے امکانات کو مزید تباہ کردے گی۔
خالد معالی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس علاقے میں یہ کالونی تعمیر کی جا رہی ہے وہ مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں پر معمول کے مطابق فلسطینیوں کی تعمیرات جاری رہی ہیں مگر اب فلسطینیوں پر مکانات تعمیر کرنے پرپابندی ہے اور اسرائیل یہودی کالونیوں کے ذریعے اس سیکٹر پرقبضہ کررہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں معالی کا کہنا تھا کہ اسرائیل القدس کے فلسطینی باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے کی منظم اور سوچی سمجھی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
خالد معالی کا کہنا ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت تیزی کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر وتوسیع میں سرگرم ہے اور امریکا میں موجودہ حکومت کے آخری دنوں کے دوران زیادہ سے زیادہ یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے منصوبوں کو آگے بڑھا کر عملا فلسطینی ریاست کے امکانات کو ختم کررہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے خالد معالی نے فلسطینی اتھارٹی کی اسرائیلی توسیع پسندی پر خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسرائیل ‘سیکٹر ای 1’ میں یہودی آباد کاری شروع کرکے غرب اردن اور القدس کو مستقبل میں فلسطینی ریاست کا حصہ بنانے کے راستوں میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے۔
خطرناک منصوبہ
‘سیکٹر ای 1’ میں تعمیرات کو اسرائیل کا خطرناک ترین منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی منظوری سنہ 1997ء میں سابق وزیر دفاع اسحاق مرڈ خائی نےدی تھی۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ الطور، عناتا، العیزریہ اور ابودیس کا مجموعی رقبہ 12 ہزار 443 دونم پر مشتمل ہے۔ اسرائیل اس میں ایک مربع کلو میٹر پر کارخانے اور 4 ہزار مکانات اور 10 بڑے ہوٹل قائم کرنا چاہتا ہے۔
سنہ 2009ء میں عالمی دبائو کے بعد اسرائیل نے یہاں پر تعمیرات روک دی تھیں تاہم سنہ 2014ء کو اسرائیلی حکومت نے ایک بار پھر امریکی آشیر باد سے یہاں تعمیرات شروع کردیں۔ سنہ 2018ء کو جب امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں اپناسفارت خانہ القدس منتقل کیا تو ‘سیکٹر ای 1’ میں اسرائیلی تعمیرات میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔