قابض صہیونی فوج نے گذشتہ فروری میں مقبوضہ بیت المقدس میں ایک بچے کی آنکھ میں گولی مار کر اسے شدید زخمی کرنے اور آنکھ سے محروم کرنے کی دانستہ اور وحشیانہ کارروائی کی تحقیقات بند کر دی ہیں۔ صہیونی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے پاس فلسطینی لڑکے مالک عیسیٰ کو گولی مارنے کے ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور زخمی فلسطینی بچے کے اہل خانہ نے اس مجرمانہ واقعہ کی تحقیقات روکنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مجرموں کو تحفظ دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق اسرائیلی فوج نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ اس کے پاس فلسطینی لڑکے مالک عیسیٰ کی آنکھ پر گولی مارنے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے جس کی بنا پر فوج کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے اس واقعے کی تحقیقات روک دی ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی ملٹری پولیس کے ہاتھوں مالک عیسیٰ کو گولیاں مار کر اس کے چہرے اور آنکھ کو زخمی کرنے کا ثبوت ہے اور وہ خود اس کے عینی شاہد ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے مالک عیسیٰ کو اس وقت گولیاں ماریں جب وہ عیسویہ میں چڑھائی کرنے والے فوجیوں کے سامنے آیا۔
مقامی فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے 23 فروری کو اسپتال میں لائے گئے مالک عیسیٰ کی آنکھ کو لاعلاج قرار دے کر کہا تھا کہ گولی لگنے سے بچے کی آنکھ مکمل طور پر ضائع ہوگئی ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ اس مجرمانہ واقعے کے چشم دید گواہ ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے مالک نے اسرائیلی فوجیوں پر کوئی پتھر نہیں پھینکا مگر قابض فوج کا کہنا تھا کہ مالک نے ان پر سنگ باری کی تھی۔ قابض ملٹری پولیس اہلکاروں نے اس پراندھا دھند گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں ایک گولی اس کی آنکھ میں پیوست ہوگئی تھی۔