القدس اور مسجد اقصی کے دفاع کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ‘القدس فائونڈیشن’ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی ریاست کی بالادستی اور خود مختاری تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق القدس انٹرنیشنل فائونڈیشن کے بیروت میں قائم صدر دفتر سے جاری ایک بیان میں عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خطرناک نتائج اور اس کے مضمرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے خلیجی ریاستوں متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے ساتھ امن معاہدے کرکے مسجد اقصیٰ پر اپنا ‘اسٹیٹس کو’ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابو ظبی، منامہ اور خرطوم نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے مسجد اقصیٰ پر غاصبانہ تسلط کو بھی تسلیم کیا ہے۔ عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیلی ریاست کے ویزے پر عرب سیاح اسرائیل آرہے ہیں جو مسجد اقصیٰ میں بھی آتے ہیں۔ اس طرح یہ عرب ملک مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی ریاست کی خود مختاری کو مضبوط بنانے میں قابض ریاست کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ انہوں نے اردن، فلسطینی اتھارٹی، بحرین اور امارات پر مشتمل ایک نیا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت عرب ملکوں سے القدس اور مسجد اقصیٰ زیارت کی راہ ہموار کرنے کا موقع ملے گا اور اردنی وزارت اوقاف کی نگرانی میں عرب ملکوں سے آئے لوگوں کو القدس اور مسجد اقصیٰ کی زیارت کی اجازت دی جائے گی۔
القدس انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ہمیں اسرائیلی میڈیا میں آنے والی خبروں کو پھیلانے میں کوئی عجلت نہیں مگر ہمیں عرب ملکوں کی طرف سے ‘معاہدہ ابراہیم’ کی آڑ میں اسرائیل کو دی گئی سہولتوں اور مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات کے حوالے سے چوکنا رہنا ہوگا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا ڈرامائی انداز میں اسرائیل کے ساتھ تمام سطح پر رابطے بحال کرنے کا اعلان اور بحرین اور امارات میں اپنے سفیروں کی واپسی، نیز اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ سعودیہ کی خبروں کے بعد یہ ان خبروں کی یقین دہانی ہو رہی ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کو القدس اور مسجد اقصیٰ پر صہیونی ریاست کا قبضہ مضبوط بنانے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔