شنبه 16/نوامبر/2024

صہیونی فوج نے فلسطینی بچے کو آنکھ سے کیوں محروم کیا؟

اتوار 22-نومبر-2020

فلسطینی قوم پر مسلط قابض صہیونی فوج ریاستی دہشت گردی کے دوران بغیر دانستہ طور پر فلسطینیوں کے جسم کے نازک اعضا پر گولیاں‌ مار کر انہیں شہید یا زخمی کر کے ہمیشہ کے لیے اپاہج اور معذور کر دیا جاتا ہے۔

اس کی تازہ مثال 15 سالہ ایک فلسطینی بچے  بشار علیان کی ہے، جسے شمالی بیت المقدس میں قلندیا کے مقام پر قابض فوج نے گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں اس کی دائیں آنکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہوگئی۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی فوج دنیا کو یہ بتانے سے قاصر رہے گی کہ اس نے ایک نہتے بچے کو اسکول سے گھر لوٹتے ہوئے آنکھ میں‌ کیوں گولی ماری مگر اس کا یہ قصور تو بہر حال ہے کہ وہ ایک نہتا فلسطینی بچہ ہے۔ اگر ایسا کسی صہیونی آباد کے ساتھ ہوا ہوتا تو پوری دنیا میں اس کا واویلا مچ جاتا اور قابض صہیونی فوج زمین آسمان ایک کر دیتی۔

پندرہ سال بشار علیان بیت المقدس میں قلندیہ پناہ گزین کیمپ میں قائم ایک اسکول سے واپس گھر لوٹ رہا تھا۔ اس دوران صہیونی فوجیوں نے اسےگولی ماری جس کے نتیجے میں اس کی دائیں آنکھ چلی گئی۔ گولی لگتے ہی علیان چلایا ‘میری آنکھ میری آنکھ’ اور ساتھ ہی شدت تکلیف سے زمین پر گر گیا۔ اسے رام اللہ کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سے اسے نابلس کے النجاح میڈیکل کمپلیکس لے جایا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ گولی اس کی آنکھ کے اندر پھنس چکی ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے اپنی دائیں آنکھ سے محروم ہوچکا ہے۔

بشارعلیان نے بتایا کہ اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد میں اپنی کتابیں اٹھائے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میرا گھر وہاں سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ راستے میں اسرائیلی فوجی اندھا دھند براہ راست فائرنگ کرنے کے ساتھ دھاتی گولیوں کی بوچھاڑ کر رہی تھی۔ آنسوگیس کے گولے برسائے جا رہے تھے اور شہریوں پر صوتی بموں کا بھی بے دریغ استعمال جاری تھا۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں میں واپس اسکول کی طرف بھاگا اور اسکول کی دیوار کی اوٹ میں پناہ لینے کی کوشش کی۔ ابھی میں اسکول کی دیوار کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ مجھے ایسے لگتا کہ کوئی چیز میری آنکھ کوچیرتی ہوئی پار ہوگئی ہے۔ میں نیم بے ہوشی کے عالم میں زمین پر گر پڑا۔

اس نے بتایا کہ وہ اپنی آنکھ سے بہتے خون کے فوارے کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ میں کسی کے لیے خطرہ نہیں ‌تھا۔ میں قابض اسرائیلی ریاست سے یہ پوچھتا ہوں کہ مجھے بینائی کی نعمت سے کیوں کر محروم کیا گیا۔

بشار کی ماں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ بشار کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو عالمی سطح پر اٹھائیں اور بچے کو گولی مار کر اس کی آنکھ ضائع کرنے اور صہیونی فوج کے اس بھیانک اور مکروہ جرم کا محاسبہ کریں۔

زخمی بچے کی ماں‌ نے روتے ہوئے استفسار کیا کہ میرے بچے کا کیا قصور تھا؟ اس واقعے میں دہشت گرد کون ہے؟ کیا میرا بچہ جو نہتا ہے اور اسکول سے گھر کو لوٹ رہا ہے یا وہ قابض فوج جو اندھا دھند بے گناہ فلسطینیوں پر بے رحمی کے ساتھ گولیاں چلاتی ہے؟ ماں ‌نے کہا کہ قابض صہیونی ریاست نے القدس میں ہماری زندگیاں، ہمارا ملک، شہر سب کچھ چھین لیا ہے اور ہمیں اس طرح کے مجرمانہ حربوں کے ذریعے فلسطین سے نکل جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

بشار علیان کی ماں ‌نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا کہ وہ اس کے بچے کے ساتھ پیش آنے والے مجرمانہ واقعے پر عالمی فورمز پر آواز بلند کرے۔

فلسطین میں ایک بچے کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ایک ایسے وقت میں آنکھ سے محروم ہونا پڑا ہے جب دوسری طرف عالمی سطح پر کل 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا گیا۔

یہ دن 1954ء سے ہر سال اسی تاریخ پر منایا جاتا ہے مگر عالمی برادری قابض صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کو تحفظ دلانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

بشار علیان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے۔ آخر کب تک فلسطینی بچے بے گناہ ہونے کے باوجود صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے؟

فلسطینی بچے کے ماں‌ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے ملکوں کے نام اپنے پیغام میں ‌کہا کہ تم اگر ہمارے بچوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو تمہیں صہیونی دشمن کے ساتھ ہمارے حقوق کی سودے بازی کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔

مختصر لنک:

کاپی