اہل فلسطین اور فلسطینی قوم کی آنے والی نسلیں عزالدین القسام شہید کے نام کو ہمیشہ ایک ہیرو کے طور پر یاد رکھیں گی۔
عزالدین القسام شہید کون تھے اور انہوںنے کیسے اور کہاں شہادت کا رتبہ پایا؟ ان کی جنگ کس کے خلاف تھی اور سب سے اہم یہ انہیں فلسطین میں جہاد، تحریک آزادی اور مزاحمت پرمشتمل جاری مسلح انقلاب کا بانی کیوں کہا جاتا ہے؟
مرکز اطلاعات فلسطین نے انہی سوالوں کے اس رپورٹ میں جواب دیے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلامی تحریک مزحمت ‘حماس’ کےعسکری بازو کا نام بھی فلسطین کے اسی عظیم ہیرو ‘عزالدین القسام بریگیڈ’ رکھا گیا ہے۔
سنہ 1935ء کو فلسطین کے علاقے ‘احراش’ یا جسے "یعبد” بھی کہا جاتا ہے عزالدین القسام نے قابض برطانوی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان کا پورا نام الشیخ عزالدین عبدالقادر مصطفیٰ یوسف محمد القسام تھا۔ اس کے بعد عزالدین القسام شہید فلسطینی قوم کے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گیا۔ انہیں جہاد اور مزاحمت کا ایک ہیر قرار دیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ حماس کے عسکری بازو کو القسام شہید کے نام سے منسوب کرکے ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ یہ نام ایک طرف برطانوی استعمار کے لیے پریشانی کا باعث تھا اور اس کے بعد قابض صہیونی ریاست کے حلق کا کانٹا بنا ہوا ہے۔
عزالدین القسام نے غرب اردن کے شمالی شہر جنین میں اپنے 12 ساتھیوں کے ساتھ معرکہ شروع کیا اور قابض برطانوی افواج کےخلاف لڑتے ہوئے شعبان 1354ھ بہ مطابق نومبر 1936ء کو جام شہادت نوش کرگئے۔
عزالدین القسام شام کے جنوبی علاقے اللاذقیہ میں جبلہ کے مقام پر سنہ 1882ء بہ مطابق 1299ھ کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک پڑھے لکھے شخص تھے۔ انہوںنے ایک کتاب بھی لکھی جس میںانہوںنے بچوں کو تعلیم دلانے کے اصول ومبادی بیان کیے۔ انہوںنے القسام کو قرآن پاک حفظ کرایا۔ اس طرح القسام بریگیڈ ایک ایسے دینی گھرانے میں پیدا ہوئے جس کی پوری فضا ایمان اور قرآن کی خوشبو سے معطر تھی۔
القسام نے اسکول کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور 14 سال کی عمر میں وہ قاہرہ منتقل ہوگئے۔ قاہرہ کے سفر میں ان کے بھائی فخر الدین بھی ان کے ہمراہ تھے اور دونوں نے جامعہ الازھرمیں داخلہ لیا۔ جامعہ الازھر میں انہیں الشیخ محمد عبدہ جیسے جید علما کےتحصیل علم کا موقع ملا۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول تک جامعہ الازھر میں زیرتعلیم رہے۔
مصر میں قیام کے دوران القسام بریگیڈ کو فلسطین پربرطانوی قبضے کا اندازہ تھا اور ان کے دل میں فلسطینی قوم کے ساتھ محبت مزید بڑھتی چلی گئی۔ ان کے سامنے برطانوی سامراج نے الکنانہ کی سرزمین پر اپنے ناپاک قدم جمائے اور اس علاقے کو اسلام سے دور اور مغربی تہذیب میں رنگنے کی مذموم کوشش کی گئی۔
آبائی شہر میں واپسی اور اصلاح کا آغاز
تعلیم مکمل کرنے کے بعد عزالدین القسام 1903ء کو واپس اپنے آبائی شہر جبلہ پہنچے۔ وہ اس وقت وسیع اسلامی ثقافت کے علم بردار تھے۔ انہوںنے اپنے شہر میں دینی اصلاح اور وعظ تدریس کا کام شروع کیا اور لوگوں میں پائی جانے والی دین سے دوری ختم کرنے کی کوشش کی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کا شکار مقامی رہ نمائوں اور دینی قایدین میں ہونے لگا۔ ان کا دینی اور علمی مقام و مرتبہ تیزی کے ساتھ بلند ہوتا رہا اور انہوں نے درس تدریس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اپنے حقوق کے لیے بیداری اور ظالم کے ظلم کے خلاف بولنے کی بھی تلقین شروع کر دی۔
انہوں نے اپنے والد کی جگہ لے لی اور بچوں کو لکھنے پڑھنے، حساب کتاب اور قرآن کریم کی تعلیم دینا شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے جبلہ کی جامع مسجد المنصور میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دینا شروع کیے اور اپنے تاثیر سے بھرے خطبات سے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے عزالدین القسام مقامی لوگوں میں مقبول ہوگئے اور لوگ ان کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔
لوگوں نے انہیں ایک پرسکون، سچا، کھرا اور محبت وطن لیڈر پایا اور کے مزید قریب ہوتے چلے گئے۔
میدان جہاد میں خدمات
الشیخ عزالدین القسام صرف ایک داعی نہیں تھے بلکہ ایک مرد مجاھد تھے۔ القسام بریگیڈ کا شمار شام کے جید عالم کے ساتھ ساتھ ایک مرد مجاھد بھی تھے۔
جب اٹلی نے لیبیا پر حملہ کیا تو القسام بریگیڈ نے اپنے شہر میں اس جارحیت کے خلاف ایک بڑی ریلی کی قیادت کی۔ انہوں نے لیبیا اور دوسرے عرب ملکوں کے عوام سے اٹلی کی جارحیت کے خلاف جہاد پر زور دیا۔ انہوں نے 250 رضا کار تیار کر لیے جنہوں نے لیبیا کے جنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے مالی امداد جمع کی اور لیبیا کی اخوان المسلمون کی مدد کی بھرپور کوشش کی گئی۔
اسی طرح جب فرانس نے شام پر چڑھائی کی تو اس کے خلاف مزاحمت اور احتجاج میںبھی القسام پیش پیش تھے۔ جبال صہیون میں سنہ 1919ء اور 1920ء کو فرانسیسیوں کے خلاف عمر البیطار کے ساتھ مل کر مزاحمت اور جہاد کا علم بلند کیا۔ ان کی علمی اور دینی خدمات کے ساتھ ساتھ مجاھدین آزادی ان کی انتظامی اور جہادی سرگرمیوں اورکوششوں سے بھی متاثر ہوئے۔
حیفا منتقلی
سنہ 1921ء کو شام میں فرانسیسیوں کی کامیابی اور انقلاب کی ناکامی کے بعد الشیخ القسام فلسطین کے علاقے حیفا منتقل ہوگئے اور وہیں قیام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے خاندان کو بھی وہیں بلا لیا۔ انہوں نے حیفا کو اپنی دینی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور شہر میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی۔ وہاں بھی وہ شمع محفل بن گئےاور ہر طرف لوگ ان کے گرویدہ ہوگئے۔
حیفا میں الشیخ القسام نے ایک دینی مدرسے میں تدرس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔ انہوںنے جامع الاسقلال میں خطابت بھی شروع کی اور سنہ 1926ء کو حیفا میں ایک یوتھ گروپ قائم کیا۔ جب تک وہ وہاں رہے اس تنظیم کے صدر رہے۔ انہیں مقامی عدالت کی طرف سے شہر کا نکاح خواںبھی مقرر کیا گیا۔ جلد ہی انہوںنے علاقے کی اہم شخصیات میں اپنا مقام پیدا کرلیا۔
حیفا میں قیام کے دوران فلسطین میں صہیونیوں کے بڑھتے خطرات کو الشیخ عزالدین القسام دیکھتے رہے۔ قابض انگریز ایک منصوبے کے تحت فلسطین میں صہیونیوں کو بسانے اور ان کے قدم جمانے کے لیے سرگرم تھے۔ اس خطرے کے پیش نظر عزالدین القسام نے جہاد کی ضرورت محسوس کی اور نوجوانوں کو جہاد کے لیے اکھٹا کرنا شروع کیا۔۔
جلد ہی مقامی لوگوںنے بھی القسام کی طرف سے ظاہر کردہ خطرات کا ادراک ہوگیا اور لوگ جوق درجوق ان کے ساتھ برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت اور جہاد کے لیے جمع ہونے لگے۔
انہوںنے سنہ 1935ء کو برطانوی استعمار کے خلاف جہاد کا آغاز کیا دیکھتے ہی دیکھتے انہوںنے کئی محاذوں پر قابض برطانوی فوج کے خلاف کامیابی حاصل کرلی۔ ان کی منظم عسکری حکمت عملی اور راز داری میں کی جانے والی کارروائیوں نے برطانوی افواج کو بوکھلاہٹ سے دوچار کردیا۔ اس طرح برطانوی فوج نے ایک بڑی تعداد القسام اور ان کے ساتھیوں کے تعاقب میںلگا دی۔