چهارشنبه 30/آوریل/2025

سعودی عرب کی مشرقی بیت المقدس میں‌یہودی آباد کاری منصوبے کی شدید مذمت

بدھ 18-نومبر-2020

سعودی عرب نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کے نزدیک یہود کو بسانے کے لیے 1257 نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔اسرائیل نے ان مکانوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے داروں سے بولیاں طلب کی ہیں۔

سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ "اسرائیل کا یہ اقدام بین الاقوامی قراردادوں کے منافی ہے، اس سے تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے کوششوں کو نقصان پہنچے گا اور خطے میں قیام امن کے لیے کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔”

اسرائیل نے گزشتہ اتوار کو مقبوضہ بیت المقدس کے نزدیک واقع حساس علاقے میں یہودی آبادکاروں کے لیے نئے مکانوں کی تعمیر کے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے سے قبل اس منصوبہ پر تیزی سے کام کرنا چاہتا ہے۔

اسرائیل کی لینڈ اتھارٹی (آئی ایل اے) نے اپنی ویب سائٹ پر گیوات حاماتوس کے علاقے میں 1257 نئے مکانوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے داروں کو بولیاں دینے کی دعوت دی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فروری میں اس منصوبہ کا اعلان کیا تھا لیکن عالمی برادری کی جانب سے شدید مخالفت کے بعد اس کو منجمد کر دیا تھا۔

آئی ایل اے کے اعلان کے مطابق بولیوں کی مدت 18 جنوری کو ختم ہوگی اور اس سے دو روز بعد نو منتخب صدر جوبائیڈن اپنے عہدے کا حلف لیں گے اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ منصب صدارت پر فائز ہوں گے۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چار سالہ دور صدارت میں اسرائیل نوازی میں پیش پیش رہے ہیں۔ انھوں نے فلسطینی سرزمین پر یہودی آبادکاروں کو بسانے کے منصوبوں کی نہ صرف سرپرستی کی ہے بلکہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر لیا ہے اور امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے اس متنازع شہر میں منتقل کر دیا تھا۔

اسرائیل کے اس منصوبہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے مشرقی بیت المقدس کے بعض حصے نزدیک واقع شہر بیت لحم سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے بھی یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ انھیں اسرائیلی ٹینڈر پر گہری تشویش لاحق ہے۔

مختصر لنک:

کاپی