شنبه 16/نوامبر/2024

نام نہاد سعودی اسکالر کی مسجد اقصیٰ کے بارے میں شیطانی شر انگیزی

منگل 17-نومبر-2020

خلیجی ملکوں کی طرف اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن معاہدوں کی مہمات کے بعد اب ان ملکوں میں موجود بعض نام نہاد دانشور اور مصنفین ‘شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار’ کے مصداق صہیونی دشمن کے ساتھ دوستانہ مراسم کو آگے بڑھانے کے لیے میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ایسے نام نہاد اسکالر اور دانشور اسلام اور دین کی حقیقی تعلیمات کو بھی بھول گئے ہیں۔ ان کے دماغ پرصرف صہیونی ریاست سے دوستی کا ‘خبط’ سوار ہے اور اپنی شیطانی سوچ اور افکار کی ترویج کے لیے مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے کے بارے میں تشکیک اور شبہات کے بیج بو رہے ہیں۔

اس طرح کی تمام سازشوں کا مقصد عرب لوگوں کے دل و دماغ میں صہیونی ریاست کے ناپاک وجود کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرنا اور فلسطینی قوم ،القدس، مسجد اقصیٰ اور فلسطینی مقدسات کو فراموش کرنا ہے۔

سعودی عرب کے ایک کثیر الاشاعت عربی اخبار ‘عکاظ’ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سعودی کالم نگار اسامہ یمانی نے مسجد اقصیٰ کے وجود کو مشکوک قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کا القدس میں کوئی وجود نہیں ملتا۔ سعودی اسکالر کے اس شیطانی نظریے پر فلسطینیوں اور دیگر مسلمانوں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔

اسامہ یمانی کے شیطانی نظریات کیا ہیں؟

اپنے مضمون میں اسامہ یمانی نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد اقصیٰ فلسطین بالخصوص بیت المقدس میں واقع ہے مگر تاریخ اور تفاسیر کی کتب میں بالخصوص متاخرین کی کتابوں میں کہا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ القدس میں ہے۔ اس طرح القدس، قبلہ اور مسجد اقصیٰ ‌کو آپس میں خلط ملط کر دیا گیا’۔

اس کا مزید کہنا ہے کہ جس مسجد اقصیٰ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا وہ مکہ اور طائف کے جعرانہ کے مقام پر واقع ہے۔ اس کا فلسطین میں کوئی وجود نہیں ہے۔

یمانی کا کہنا ہے کہ القدس مسجد اقصیٰ نہیں ہے۔ بعثت نبوی کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفا راشدین اور اس کے بعد بھی مسجد اقصیٰ کو القدس میں نہیں بتایا گیا۔

طویل بحث کے بعد سعودی دانشور مزید لکھتا ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول نہیں اور اس حوالے سے جو مروجہ باتیں کی جاتی ہیں وہ درست نہیں۔ اسلاف کی آرا میں ہمیں بیت المقدس کے قبلہ اول ہونے پر اختلاف نظر آتا ہے اگرچہ لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ مسجد اقصیٰ القدس میں ہے مگر تاریخی مصادر میں اس کا ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔

اسامہ یمانی لکھتا ہے کہ سنہ 691 ء میں عبدالملک بن مروان نے قبۃ الصخرہ میں ایک مسجد تعمیر کی اور اس نے ابن زبیر کے ساتھ مخالفت میں آ کر اس مسجد کو قبلہ قرار دیا۔ کیونکہ ابن زبیر نے حجاج کرام سے بیعت لی تھی کہ وہ حج کے لیے مکہ آئیں گے جب کہ مروان چاہتا تھا کہ مسلمان ابن زبیر کی بات نہ مانیں اور وہ مسجد قبۃ الصخرہ کو قبلہ مان کر وہاں حج کے لیے آئیں۔ اس نے مکہ معظمہ کے بجائے القدس کو قبلہ قرار دیا۔ تاریخ ابن خلکان میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہے۔

سعودی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ ، قبلہ اول اور القدس کے حوالے سے مسلمانوں میں پائے جانے والے اختلافات پس منظر دراصل سیاسی اختلافات ہیں۔ اس جگہ کا ایمان، مسلمانوں کی عبادات، اعمال اور مفادات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

سعودی دانشور کے شیطانی خیالات کا جواب

سعودی اخبار ‘عکاظ’ میں شائع ہونے والے مضمون کے جواب میں فلسطین اور دوسرے ملکوں کے اخبارات میں مضامین شائع ہو رہے ہیں۔

سابق فلسطینی وزیر یوسف الرزقہ کا اسامہ یمانی کے مضمون  کے جواب میں ایک مضمون لکھا ہے جو مرکز اطلاعات فلسطین پر شائع کیا گیا۔ انہوں نے سعودی دانشور کی جعلی سازی کو تاریخی اور مستند ماخذ سے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اس کی دروغ ثابت کی ہے۔

یوسف الرزقہ کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے القدس میں موجود ہونے اور اس کے قبلہ اول پر اسلاف میں کوئی اختلاف نہیں اور پر پوری مسلم امہ کا ہر دور میں اجماع رہا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ فلسطین کے مقدس شہر بیت المقدس میں موجود ہے اور وہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ وہیں ہے۔ وہ مسجد حرام کے بعد کرہ ارض پر دوسری مسجد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں فرشوں اور جنوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہاں سے پیغمبر پاک علیہ السلام نے معراج شریف کا سفر فرمایا۔

الرزقہ کا کہنا ہے کہ نبی اکرم نے اپنی امت کو سکھایا ہے کہ جس مسجد سے انہوں ‌نے اسرا اور معراج کا سفر کیا وہ مسجد اقصیٰ ہے، جو القدس میں واقع ہے۔

انہوں نے سعودی دانشور کو جاہل اور بے عقل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسجد اقصیٰ طائف کے قریب جعرانہ میں ثابت کرنے والا پہلے اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرے۔ انہوں ‌نے اخبار عکاظ کو بھی ہدف تنقید کیا اور کہا کہ سعودی اخبار کو ایک جعلی اور من گھڑت کہانیوں پر مبنی مضمون کی اشاعت کے ذریعے اپنی ساکھ خراب نہیں کرنی چاہیے۔

اس سے قبل ایک مصری دانشور نے بھی اسامہ یمانی کے جعلی اور من گھڑت خیالات کا بھرپور رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یمانی جیسے لوگ صرف اسرائیل کی چاکری اور کاسہ لیسی کے لیے اپنی تاریخی روایات اور تعلیمات کو بھی پس پشت ڈالر رہے ہیں۔

سابق فلسطینی وزیر یوسف الرزقہ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسامہ یمانی جیسے غیرذمہ دار لوگوں کو عوام کو گمراہ کرنے سے کرنے سے باز رکھیں۔

مختصر لنک:

کاپی