قابض اسرائیلی پولیس نے بدھ کی شام مسجد اقصی کے مسودات کے مرکز کے ڈائریکٹر رضوان عمرو کو اغوا کرنے کے بعد انہیں رہا کیا ہے مگر ان کی رہائی اس شرط پرعمل میں لائی گئی ہے کہ وہ آئندہ ایک ہفتے تک مسجد اقصیٰ میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ صہیونی حکام کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں ان کے داخلے پر پابندی کی سزا میں توسیع کر سکتی ہے۔
عمرو کے اہل خانہ کے مطابق پولیس فورسز نے مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں الثوری کے علاقے میں اس کے گھر پر ہلہ بولا اور توڑ پھوڑ کی۔
پولیس نے عمرو کو حراست میں لینے سے قبل اس کے گھر سے کمپیوٹر، سیل فون ، کاغذات اور کتابیں بھی ضبط کیں۔
رضوان عمرو مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن ہیں جو مقبوضہ بیت المقدس اور سجد اقصی میں اسرائیلی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ان کی والدہ زینہ عمرو بھی مسجد اقصیٰ میں ایک ٹیچر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں اور ان کے والد مقبوضہ بیت المقدس کے امور میں علمی ماہر ہیں۔
قابض اسرائیلی پولیس نے حال ہی میں اسلامی اوقاف کے عہدیداروں اور ملازمین کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کے شہریوں کے خلاف بھی ظلم و ستم کی مہم کو بڑھایا ہے جو مسجد اقصی کے دفاع میں سرگرم ہیں۔
دوسری جانب فلسطینی حلقوں نے ڈاکٹر رضوان عمرو کی گرفتاری اور ان کی القدس میں بے دخلی کی شدید مذمت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کو اہم فلسطینی شخصیات محروم کرنے کی دانستہ سازش قرار دیا ہے۔