جمعه 15/نوامبر/2024

امریکا میں‌ صدر کی تبدیلی سے فلسطینیوں‌کو کیا توقعات وابستہ ہیں؟

پیر 9-نومبر-2020

امریکا میں تین نومبر کو منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد دنیا بھر کی طرح فلسطینی بھی امریکی انتخابات کے نتائج پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی کئی سالوں سے چلی آرہی اسرائیل کی طرف داری پر مبنی تاریخ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی انتخابات میں کامیابی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے کوئی زیادہ فرق پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کے وائٹ ہائوس میں براجمان ہونے سے کسی حد تک امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کا امکان ہے مگر جوہری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کے زوال کے بارے میں فلسطینیوں کی رائے ہے تو فلسطینیوں کے لیے یہ بات تو خوش آئند ہے کہ ٹرمپ جیسا اسرائیل کی اندھی حمایت کرنے والا امریکی صدر شکست سے دوچار ہوا ہے۔ اس کے بعد وجود میں آنے والی امریکی انتطامیہ نے اگر ٹرمپ کی وراثت کو آگے نہ بڑھایا تو کسی حد تک فلسطینیوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔

مشرق وسطی کا سب سے اہم مسئلہ فلسطین کیا تنازع ہے۔ اس مسئلے کی بقاء نے "اسرائیل” کے ساتھ معاملات سے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی سال ہا سال سے دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی حکمران طاقت کے ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کیسے برتائو کرتی ہے۔ گذشتہ چار سال کے ٹرمپ کے دور صدارت میں اسرائیل کی اس انتہا پسند حکمران طاقت نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی مرضی کے فیصلے کرائے ہیں۔

توقع کی جارہی ہے کہ ڈیموکریٹس کی انتظامیہ فلسطینی سیکیورٹی اداروں اورپناہ گزینوں کے ذمہ دار ادارے ‘یو این آر ڈبلیو اے’ جیسے اداروں کی مدد بحال  کرے گی۔ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے بھی ٹرمپ جیسی سختی نہیں برتی جائے گی۔ تاہم نئی امریکی انتظامیہ بھی فلسطینیوں اور اسرائیل کے ساتھ مذکرات کی رٹ ضرور لگائے گی۔

اس کے باوجود  یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ڈیموکریٹس کی طرف سے کیے گئے وعدے کب اور کیسے ایفا ہوتے ہیں۔

ڈیموکریٹس کی واپسی

بائیڈن انتظامیہ کے ڈیموکریٹس  لیڈروں نے فلسطینی نصب العین کے لیے بہتر اقدامات کا وعدہ کیا ہے لیکن فلسطین میں ‌یہودی آباد کاری کاعمل تو ڈیموکریٹس کے دور میں بھی جاری رہا ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر نے جہاں تنازع کے دو ریاستی حل کو مشکل میں ڈالا وہیں فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا۔ اس سنگین معاملے پر ڈیموکریٹس کی ماضی کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنا ٹرمپ انتظامیہ کا  فیصلہ تھا مگر یہ تجویز سنہ 1995 میں کلنٹن انتظامیہ کے دوران پیش کی گئی تھی جسے ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں نافذ کیا۔ اگرچہ بل کلنٹن کے دور اس کے بعد ٹرمپ کی صدارت تک یہ تجویز بار بار ملتوی کی جاتی رہی ہے۔

"ٹرمپ” کی طرف سے فلسطین کے مسئلے کی طرف اٹھائے جانے والے اہم ترین فیصلوں اور اقدامات میں  امریکی سفارت خانے کو "تل ابیب” سے القدس منتقل کرنا، فلسطینی اتھارٹی اور "یو این آر ڈبلیو اے” کے لیے مالی امداد منقطع کرنا اور واشنگٹن میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن "پی ایل او” کے دفتر کو بند کرنا شامل تھا۔

ٹرمپ نے فلسطینی سرزمین میں اسرائیلی آباد کاری کو بھی قانونی قرار دیا شام کے مقبوضہ وادی گولان پر "اسرائیل” کی خودمختاری کو تسلیم کیا مذکورہ بالا ساری چیزیں کسی بھی امریکی صدر نے پہلے "اسرائیل” کی خدمت میں فراہم نہیں کی تھیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور ایک فلسطینی سفارت کار علاء ابو عامر نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ انتظامیہ  کے 4 سالہ انتقامی دورکو برداشت کیا اور ایک نئی امریکی انتطامیہ کا انتظار کیا ہے۔

ابو عامر نے مرکز اطلاعات فلسطین  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ اوباما انتظامیہ میں سکریٹری خارجہ جان کیری نے صدر عباس کو ڈیموکریٹس کی انتظامیہ کی واپسی کا وعدہ کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ صبر کرنے اور اس سے ٹکراؤ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

صدر اوباما جب رخصت ہونے لگے تو انہوں نے کچھ بہتر اقدامات کیے تھے مگر ٹرمپ کے چار سال انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے "نیتن یاہو” پر بات چیت میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا جبکہ جان کیری نے فلسطینی اسرائیل تنازعہ میں دو ریاستوں کے حل کی منظوری کا مطالبہ کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اوباما دور کے اختتام پر سلامتی کونسل کی طرف سے ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں  فلسطین میں یہودی بستیوں کی مذمت کی گئی تھی۔ 1967 کی سرحدوں پر دو ریاستوں کے حل کی حمایت کی گئی تھی۔ یہ قراردادیں اقوام متحدہ کے فورم پر 30 سال سے موجود ہے۔سنہ  2002 کے عرب امن فارمولے میں بھی اس کی حمایت کی گئی تھی۔

ایک مایوسی کا نظریہ

مصنف اور سیاسی تجزیہ کار محمود العجمری  نے بائیڈن انتظامیہ میں فلسطینی منظر سے متعلق امریکی پوزیشن کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا  ہے کہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر مذاکرات کی بھولبھلیوں میں ‌واپسی کی بات اپنی جگہ مگر اس طرح کی تجاویز کا کوئی فایدہ نہیں‌ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیموکریٹس ری پبلیکن سے بہتر نہیں ہیں۔ یہ دونوں  قابض اسرائیل ہی کے مہرے ہیں۔ پچھلی اوباما انتظامیہ نے فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ 38 ارب ڈالر اور ایف 35 طیارے اسرائیل کو دیے۔ یہ امریکا نے اسرائیل کے سوا کسی کو نہیں دیے تھے۔ اسی طرح امریکی سفارت خانے کی  منتقلی کا فیصلہ کلنٹن انتظامیہ میں 1995 میں جاری کیا گیا تھا۔

تاریخی تعصب

امریکی موقف تاریخی اعتبار سے "اسرائیل” کے ساتھ جانب داری اور فلسطینیوں سے تعصب پر مبنی رہا ہے۔ یہ فلسطین کی مقبوضہ اراضی پر "اسرائیل” کے قیام کو تسلیم کرنے والا سوویت یونین کے بعد دوسرا ملک ہے۔ جب کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے ادوار نے 72 سالوں کے دوران تنازع کے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی بلکہ تقریبا ایک جیسا بیانیہ تشکیل دیا۔

وائٹ ہاؤس کو چلانے کے لیے ڈیموکریٹس کی واپسی کے بارے میں ابو عامر کے پر امید ہونے کے باوجود، ان کا خیال ہے کہ "اسرائیل” کی بقا، تسلسل اور بالادستی کے ساتھ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتوں کا عرب۔ اسرائیل تنازعات کے حل کے لیے سیاسی طرز عمل ایک ہی ہے۔ وہ اسے عیسائی نجات سے متعلق ایک اسٹریٹجک اور مذہبی خزانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

نو منتخب امریکی نائب صدر کمالا ہیریس نے چند روز قبل ایک پریس بیان میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی بہت سی پالیسیوں میں تبدیلی لائے گی اور "فلسطینی عوام کو معاشی اور انسانی امداد کی بحالی اور غزہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرے گی۔”

انہوں نے مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانہ دوبارہ کھولنے واشنگٹن میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے مشن کو دوبارہ کام کی اجازت دینے اور "دو ریاستی حل” کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہیں اور ہم اس مقصد کو متاثر کرنے والے کسی یک طرفہ اقدامات کی مخالفت کریں گے۔ ہم الحاق اسرائیلی منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔

مختصر لنک:

کاپی