جمعه 15/نوامبر/2024

مجرمانہ عالمی غفلت کے نتیجے میں فلسطین میں صحافت پابند سلاسل

جمعہ 6-نومبر-2020

مقبوضہ فلسطین میں قابض صہیونی افواج اور قابض ریاست کے دیگر سیکیورٹی ادارے ریاستی پالیسی پرعمل درآمد کرتے ہوئے اہل صحافت اور اس مقدس پیشے پرآئے روز نئی قدغنیں عاید کر رہے ہیں۔

درجنوں سینیر فلسطینی صحافی اس وقت صہیونی زندانوں میں قید ہیں۔ ایک صحافی کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پیشہ ورانہ ذمہ داری انجام دینا ہوتی ہے۔ اس دوران اس کی جان بھی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی فلسطینی صحافی اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر جائے تو عالمی برادری اور بین الاقوامی منصف اس پر چپ سادھ کر اپنی مجرمانہ غفلت کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔

اس کی ایک مثال غزہ کی پٹی میں شہید ہونے والے یاسر مرتضی کی ہے۔ یاسر کو اسرائیلی فوج نے اڑھائی سال قبل غزہ کی پٹی میں مظاہروں کی کوریج کے دوران گولیاں‌ مار کر شہید کر دیا تھا۔ اس کے خاندان نے عالمی اداروں، انسانی‌اور صحافتی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں اظہار رائے کے علم برداروں سے اپیل کی تھی کہ وہ انہیں انصاف فراہم کریں مگر ایسا نہیں‌ جا سکا۔ یاسر کا خون بھی دیگر نہتے فلسطینی شہدا کے خون کی طرح رائیگاں ‌نہیں جائے گا مگر اس کی شہادت پر عالمی برادری اور انصاف کے علم برداروں کے لیے جس طرح دیگر شہدا کے حوالے سے مجرمانہ غفلت ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایسے ہی یاسر مرتضیٰ کی شہادت بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ فلسطینی صحافی کے اہل خانہ کی طرف سے بار بار عالمی اداروں سے اپیل کی گئی کہ وہ پتا چلائیں کہ ایک فوٹو گرافر کو بغیر کسی جرم کے کیوں کر شہید کیا گیا۔

یاسر نے صحافتی جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی رو سے تحفظ بھی حاصل تھا مگر صہیونی فوج کی گولیاں اس کے سینے کو چاک کرتے ہوئے پار ہوگئی اور اس کی جیکٹ اور جسم لہو رنگ ہونے کے باوجود عالمی اداروں کی آنکھیں بند ہیں۔

مجرم کب تک کٹہرے سے بچیں ‌گے؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2 نومبر کو صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس میں زور دیا کہ صحافیوں کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث قوتوں کا مواخذہ کیا جائے اور صحافیوں کے خلاف جرائم اور طاقت کے وحشیانہ استعمال کو روکا جائے۔ اس موقعے پرایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ صحافیوں اور صحافتی اداروں‌کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا تدارک کیا جائے گا۔

اس قرارداد کی منظوری کے وقت یاسر مرتضٰی کے لواحقین نے ایک بار پھر عالمی برادری کو یاد دلایا کہ صحافتی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہونے والوں میں وہ بھی شامل ہیں اور انہیں بھی انصاف نہیں مل سکا ہے۔ صہیونی ریاست پوری دنیا میں صحافیوں کو نشانہ بنانے میں آگے ہے مگر اسرائیلیوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی اقدام کیوں‌نہیں کیا جاتا؟۔

شہید صحافی یاسر کے بھائی معتصم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو اڑھائی برس قبل بغیر کسی وجہ کے گولیاں مار کر شہید کردیا گیا تھا مگر عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری آج تک خاموش تماشائی ہے۔

انہوں‌نے کہا کہ یاسر کی شہادت بھی اسرائیلی ریاست کا فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں سے ایک جرم ہے۔ یہ ایک سنگین جنگی جرم ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے کردار پربھی دھبہ ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری آخر کب تک فلسطینی صحافیوں کے  اس طرح بے دردی کے ساتھ قتل عام پر خاموش تماشائی رہے گی۔

گذشتہ کچھ عرصے کے دوران صہیونی ریاست 90 فلسطینی صحافیوں کو شہید کرچکی ہے۔ فلسطینی صحافت کو پابند سلاسل کرنا اور صحافتی اداروں اور کارکنوں پرقدغنیں لگانا صہیونی حکومتوں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔
یاسر کی شہادت کا واقعہ اور اس جرم میں صہیونی ریاست کا مواخذہ نہ کیا جانا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسرائیلی ریاست اس طرح کے جنگی جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔

گذشتہ 14 سال یعنی 2006ء ست 2019ء کے آخر تک پوری دنیا میں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران 1200 صحافیوں کو شہید کیا گیا۔ ان میں سیکڑوں فلسطینی صحافی شامل ہیں جنہیں مظاہروں کی کوریج کے دوران اسرائیلی فوجیوں‌نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا۔

مختصر لنک:

کاپی