مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی پر یہودی آباد کاروں کے دھاووں کے جلو میں ان دنوں عرب ملکوں سے آئے اسرائیل نواز عناصر کی بڑی تعداد کو بھی مسجد اقصیٰ میں آتے جاتے دیکھا گیا ہے۔ جس طرح یہودی آباد کاروں کو صہیونی فوج اور پولیس کی طرف سے فول پروف سیکیورٹی مہیا کی جاتی ہے وہیں صہیونی پولیس اور فوج خلیجی ملکوں سے آئے نام نہاد اسرائیلی دوستوں کو بھی سیکیورٹی فراہم کرتی ہے۔ اس طرح عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ معاہدے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی ریاست کے تسلط کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں مدد فراہم کررہے ہیں۔
ہمارے سامنے جولائی 2019ء کا ایک واقعہ ہے جب ایک سعودی صحافی محمد سعود نے بیت المقدس میں گھس کر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو زندہ دلان القدس نے اس کے خلاف مہم شروع کی تو اسے بھاگنے کی فرصت بھی نہیں ملی۔
حال ہی میں خلیجی ملکوں کا ایک دوستی وفد صہیونی ریاست کے دورے پرآیا اور اس نے بھی مسجد اقصیٰ میں گھسنے کی کوشش کی تو انہیں بھی فلسطینیوں کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس گروپ کو مسجد اقصیٰ میں اس وقت داخل کیا گیا جب مسجد کو ان سے خالی کر الیا گیا۔
القدس کے شہریوں کا کہنا ہے کہ عرب ملکوں کے باشندوں کی اسرائیلی ویزے پرالقدس آمد دراصل مسجد اقصیٰ کے تشخص کو پامال کرنے میں اسرائیل کی مدد کرنا اور اسرائیلی ریاست کے موقف کی تائید وحمایت کرنا ہے۔
اس طرح نام نہاد عرب اسرائیل دوستی مسجد اقصیٰ پر یہودی آباد کاروں اور صہیونی ریاست کے تسلط کے قیام میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔
اماراتی حکومت سنہ 2014ء میں بھی مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی تسلط کو مستحکم کرنے میں مدد فراہم کرنے کی کوشش کرچکی ہے۔ سنہ 2014ء کو امارات نے اسرائیل کے یہودی توسیع پسندی کےاداروں کو سلوان کےمقام پر 50 املاک پر قبضے میں معاونت کرچکا ہے۔ ان 50 املاک کو یہودیوں کے حوالے کیا گیا اور اس اقدام میں امارات نے اسرائیلیوں کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ برس اماراتی حکومت نے مسجد اقصیٰ سے متصل متعدد املاک پر قبضے کی کوشش کی تاہم فلسطینیوں نے بر وقت بیداری کے ذریعے امارات کی سازش ناکام بنا دی۔ پچھلے سال امارات نے باب الفیصل کے مقام پر اراضی اور املاک حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
فلسطینی تجزیہ نگار خالد زبارقہ کا کہنا ہے کہ ہم گذشتہ کچھ عرصے سے امارات کی القدس میں سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اماراتی حکومت فلسطینی کاروباری شخصیات کو اپنے چنگل میں پھنسا کر القدس میں املاک حاصل کرنے کی شرمناک کوشش کررہا ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ متعدد فلسطینی تاجروں نے امارات کی مدد کی ہے۔
امارات اور معاہدہ ابراہیم
خالد زبارقہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان طے پانے والے نام نہاد امن معاہدے کو’معاہدہ ابراہیم’ کا نام دیا گیا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ معاہدے کے لیے یہ نام امارات کا تجویز کردہ نہیں بلکہ یہ تجویز اسرائیل نے پیش کی تھی۔ معاہدے کے ساتھ جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم کا نام شامل کرنا دراصل عرب اور مسلمان ممالک کو مسجد اقصیٰ کے تاریخی، دینی عرب اور اسلامی تشخص کو پامال کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں معاہدہ ابراہیم میں سوڈان بھی شامل ہوا۔ معاہدہ ابراہیم کا نام دے کر اسرائیل دراصل القدس اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنے مذموم اور ناپاک عزائم کوآگے بڑھانا چاہتا ہے۔ دراصل معاہدہ ابراہیم صہیونی ریاست کو مسجد اقصیٰ پر تسلط جمانے کا موقع فراہم کررہا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے 15 ستمبر کوصہیونی ریاست کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس سمجھوتے کو معاہدہ ابراہیم کا نام دیا تھا۔